روڈ نہیں تو ووٹ نہیں کے نعروں میں پھنس گئی نتیش کی ڈبل انجن سرکار۔

راجد (آر جے ڈی) اور کانگریس کے ساتھ مل کر اسمبلی انتخاب میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والے نتیش کمار نے جب اچانک مہاگٹھ بندھن کی انکھ میں دھول جھونک کر بی جے پی کا دامن تھاما تو مرکز اور ریاست دونوں جگہ این ڈی اے کی حکومت کا فائدہ شمار کراتے ہوئے بہار کے لیے اس حکومت کو ’ڈبل انجن‘ کی حکومت کا نام دیا گیا۔ اس ڈبل انجن کا تذکرہ خوب ہوا لیکن لوک سبھا انتخاب کے دوران این ڈی اے نے کسی امیدوار کے اسٹیج سے کوئی بڑا لیڈر اس کا تذکرہ کرنے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

بہار میں انتخابی تشہیر کے لیے آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی مرکز کے جھوٹےمنصوبوں کی جھوٹی خوبیاں شمار کرا رہے ہیں، تو وزیر اعلیٰ نتیش کمار بہار کے منصوبوں سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ اس درمیان بار بار ووٹنگ کے بائیکاٹ کی خبریں آنا این ڈی اے کو اندر سے کھوکلا کرنے والی ہے۔ ریاست میں سڑکوں کے لیے عام لوگوں نے اتنی جگہوں پر ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ تک کے نام پر بہار میں چل رہے سڑک منصوبوں کے جھوٹے دعوے کی پول کھل گئی ہے۔ 

لوک سبھا انتخاب کے پانچویں مرحلہ میں 6 مئی کو سیتامڑھی، مدھوبنی، سارن، مظفر پور اور حاجی پور جب کہ چھٹے مرحلہ میں 12 مئی کو والمیکی نگر، مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن، شیو ہر، ویشالی، سیوان، مہاراج گنج اور گوپال گنج سیٹوں پر ووٹنگ ہے۔ دونوں مرحلوں میں ووٹ کے بائیکاٹ کی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں۔

 

دیہی سڑکوں کا جال کھڑا کرنے کا دعویٰ کرنے والی ڈبل انجن سرکار کی ووٹروں نے ہوا نکال دی ہے۔ شاید ہی کوئی ایک لوک سبھا حلقہ ہو جس میں ’روڈ نہیں تو ووٹ نہیں‘ کا نعرہ گونجا نہ ہو۔ لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد سے لگاتار ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ متعلقہ حلقہ میں ووٹنگ کی تاریخ کے 15 دن پہلے سے ہر جگہ یہ گونج تیز ہوتی رہی۔ بہت سارے ایسے علاقوں میں الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ووٹروں کو منا لیا لیکن کئی علاقے کے لوگ نہیں مانے اور انھوں نے ووٹ دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا۔

 

29 اپریل کو مونگیر سیٹ کے لکھی سرائے اسمبلی حلقہ کے ہلسی میں ایک بوتھ پر ووٹنگ کے بائیکاٹ کی خبریں بھی آئیں۔ مونگیر وہی سیٹ ہے جہاں جنتا دل یو نے اپنے قدآور لیڈر اور وزیر اعلیٰ کے سب سے قریبی راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ کو کامیاب بنانے کے لیے پوری طاقت جھونک دی۔ اس بار انتخابات میں سرکاری نظام کے بیجا استعمال کی خبریں سب سے زیادہ مونگیر سے ہی آئیں کیونکہ یہاں سیدھے طور پر نتیش کمار کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود روڈ کے نام پر یہاں ایک جگہ ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا جانا اپنے آپ میں ڈبل انجن حکومت کے منھ پر طمانچہ ہے۔

اس سے پہلے، یعنی تیسرے مرحلہ میں جھنجھار پور لوک سبھا سیٹ پر انتخاب کے دوران انتخابی کمیشن کی ٹیم جھنجھار پور سب ڈویژن کے ہی لکھنور واقع دیپ گاؤں کو لے کر پریشان تھی۔ گاؤں کے کھرنجے کو سڑک میں تبدیل کرنے کے مطالبہ کے ساتھ لوگوں نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ارریہ میں نصف درجن گاؤں کے لوگوں نے پرمان ندی کے جھمٹا مہیشاکول گھاٹ پر چچری پل کی جگہ مستقل پل کا مطالبہ کرتے ہوئے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی کھگڑیا سیٹ پر بیلدور اسمبلی حلقہ کے توفر گڑھیا بوتھ کے ووٹروں نے روڈ نہیں بننے کے سبب ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ کھگڑیا کے ہی پربتّہ اسمبلی حلقہ میں نوٹولیا واقع مڈل اسکول کے بوتھ کے ساتھ اندرا نگر اور دھن کھیتا کے لوگوں نے بھی اسی مطالبے کو لے کر ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

جس وقت کھگڑیا میں ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان ہو رہا تھا، تقریباً اسی وقت قریب کے بیگوسرائے لوک سبھا حلقہ میں انتخابی عمل سے جڑے افسروں کو دو علاقے کے لوگوں کے نعروں نے پریشان کر رکھا تھا۔ بیگوسرائے-روسڑا روڈ سے اندر بوڑھی گنڈک ندی سے گھرے تھاتھا گاؤں تک سڑک کا مطالبہ برابرگونجتا رہا۔

مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے وقار کا سوال بنا بیگوسرائے میں ہی موہن پور اور گمہریا گاؤں کو جوڑنے والی پلیا کی تعمیر کے مطالبہ کے ساتھ لوگ نعرے بازی کر رہے تھے۔ بھوئی دھارا پل کے نام سے مشہور یہ پلیا 1987 کے سیلاب میں کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی تھی۔ وقت کے ساتھ اور کمزور ہوتی پلیا پر لوگ بہت مشکل سے چلتے رہے، لیکن اس بار پلیا تعمیر کے لیے تحریک شروع کر انتخابی کمیشن تک اپنی بات پہنچا ہی دی۔

اس سے قبل یعنی پہلے و دوسرے مرحلے میں کشن گنج کے پاٹھاماری ڈویژن میں دلّے گاؤں کے پاس میچی ندی پر پل کی دہائیوں پرانی مانگ کو لے کر چھ وارڈ کے سارے ووٹروں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ بھاگلپور لوک سبھا حلقہ میں گوپال پور اسمبلی کے چھ بوتھوں پر ہزاروں لوگوں نے روڈ کے نام پر ہی ووٹ نہیں دیا۔ نزدیک کی ہی بانکا سیٹ پر جنتا دل یو نے اس بار اپنی کارگزاری کا دعویٰ کرتے ہوئے امیدوار کھڑا کیا تھا، لیکن یہیں امر پور کے دھمڑا، دھوریا کے جھِٹکا اور پنجوارا کے چنڈی ڈیہہ میں ووٹروں نے سڑک کے مطالبہ کے ساتھ ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔

دیکھا جائے تو ڈبل انجن سرکار کو حقیقت کا آئینہ دکھانے والے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا سلسلہ پہلے مرحلہ سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ گیا لوک سبھا حلقہ کے شیر گھاٹی میں بیلا گاؤں کے لوگوں نے شروع کے مرحلے میں ہی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پریا ڈویژن میں کرہٹّا پنچایت کے سکندر پور میں، پیرا چک، کونچ ڈویژن کے سیتا بگہا اور کلیان پور میں، امام گنج کے لٹوا پنچایت میں گیجنا وغیرہ کے ووٹروں نے بھی ایسے ہی مطالبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔

پہلے مرحلہ میں ہی نوادہ کے وارث علی گنج اسمبلی حلقہ کے بلیاری، بڈیہا، گوند پور اسمبلی حلقہ کے بجبارا، رجولی اسمبلی حلقہ کے بوتھ پر روڈ کے لیے ووٹنگ کے بائیکاٹ کی خبروں نے ڈبل انجن سرکار کی کارگزاری اور اس کی بدتر حالت کو منظر عام پر لا دیا۔