روس میں افغان امن مذاکرات

اس دورِ خرافات میں ہیں آپ فرشتہ
محفوظ پڑوسی ہے اگر آپ کے شر سے
روس میں افغان امن مذاکرات
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ روس نے افغانستان میں امن بحال کرنے کی خواہش کے ساتھ امن مذاکرات کی میزبانی کی جہاں طالبان نے پہلی مرتبہ کسی امن مذاکرات میں شرکت کی تھی ۔ اس طرح کی پہل بلا شبہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ مگر کون ملک امن کی جانب پیشرفت میں دلچسپی رکھتا ہے یہ واضح نہیں ہے ۔ امریکہ کو روس کی ان کوششوں پر تحفظ ذہنی ہوسکتا ہے مگر وہ بھی اب افغانستان سے محفوظ طریقہ سے نکلنے کی فراق میں ہے ۔ جنگ زدہ ملک سے اپنی فوج کو کس طرح نکالے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے والا امریکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لے کر اگر افغانستان کی گڑبڑ زدہ حالیہ تاریخ میں نئی تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے تو یہ اچھی شروعات ہوسکتی ہے ۔ روس نے تمام فریقین کی سنجیدہ اور با مقصد بات چیت کے ساتھ مثبت نتائج کے لیے امید پیدا کرلی ہے ۔ افغانستان مسئلہ کا اگر عالمی قائدین کے درمیان سیاسی حل نکالا جاتا ہے تو یہ ایک روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھانے کا اشارہ ہوگا ۔ افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اگر کوئی سیاسی حل نکالا جاتا ہے تو افغانستان کے عوام کو ایک بڑی راحت ملے گی لیکن افغانستان کے معاملے میں روس کی پہل پر شبہ کرتے ہوئے امریکہ اور صدر افغانستان اشرف غنی نے جو اندیشے ظاہر کئے ہیں انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ویسے روس امن کوششیں اس لیے کررہا ہے کیوں کہ وہ اس خطہ کا اہم ملک ہے اور اس خطہ کے دیگر اہم ملکوں اور مختلف گروپس کو جمع کر کے ہی خاص کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ افغانستان میں طالبان کو ایک پرامن دھارے میں لانے سے تمام خطہ کو امن کا گہوارہ بنانے میں مدد ملنے کی توقع کرنے والے ملکوں کو یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں دیگر تنظیمیں سر ابھارنے نہ پائیں ۔ طالبان کے مقام پر اگر دولت اسلامیہ اور دوسرے شدت پسند گروپس کی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو اس سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگا اور افغانستان کی سرزمین شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے متاثر ہی رہے گی ۔ روس میں ہوئی امن مذاکرات کے نتائج فوری برآمد ہوں گے توقع نہیں کی جاسکتی لیکن اس کانفرنس میں مختلف اہم قائدین کی شرکت ہی ایک بڑی تبدیلی متصور ہورہی ہے بلکہ روس کی سب سے خاص ڈپلومیسی ہے کہ اس نے امریکہ کے سامنے چیلنج کھڑا کرتے ہوئے طالبان کی میزبانی کی ہے ۔ روس نے یہ امن کانفرنس ایک ایسے وقت طلب کی جب کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے نظم و نسق نے بھی طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات تیز کردئیے تھے ۔ حالیہ مہینوں میں طالبان سے امریکی سفیروں نے دو مرتبہ ملاقات کی تھی ۔ ماسکو مذاکرات میں جو کچھ بھی امن بات چیت ہوئی ہے اس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک افغانستان کے مسئلہ پر تعمیری اور سنجیدہ بات چیت نہیں ہوتی ، افغان باشندوں میں امن کے بارے میں حوصلہ افزاء امید پیدا نہیں ہوگی ۔ افغانستان میں قیام امن کی باتیں ایک دیرینہ مسئلہ پر چھوٹا اور پہلا قدم سمجھی جارہی ہیں ۔ اور اس کے بہتر نتائج صرف اس وقت مل سکتے ہیں جب تمام فریقین افغانستان کے بنیادی مسائل اور اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کام کریں۔ ان مذاکرات میں خطہ کے تمام ملکوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ امریکہ کے مبصر نے بھی شرکت کی تھی ۔ اگر اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے نمائندوں نے امن بات چیت پر دھیان دینے سے زیادہ اپنے اپنے ملکوں کے مفادات کو مد نظر رکھ کر امن مذاکرات میں شرکت کی ہے تو پھر بہتر نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ امریکہ اپنے 2200 سے زائد سپاہیوں کو کھو کر اور زائد از 840 ملین ڈالر خرچ کر کے بھی افغانستان میں امن بحال کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ ایسے میں روس کو بھی اپنے حصہ کے طور پر کوشش کرتے دیکھا جارہا ہے تو یہ ایک خوش آئند علامت متصور کی جائے گی ۔۔