روزہ … جدید سائنس کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں، اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزہ کا فدیہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزے رکھو‘‘۔ (سورہ البقرہ۔۱۸۳،۱۸۴)ہم سب جانتے ہیں کہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۳ سے ۱۸۷ تک ہمارے دین کے اہم رکن روزہ کا حکم دیا گیا ہے اور تمام تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ ہم آیت ۱۸۴ کے آخری حصہ میں بیان کردہ حقائق کا طبی نقطہ نظر سے مطالعہ کریں گے۔ اس حصہ میں بتایا گیا ہے کہ روزہ ایک اچھی چیز ہے، جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس امر کا بھی اعلان کیا گیا ہے کہ ہم اس سے حاصل کردہ رحمتوں کو سمجھ سکتے ہیں، اگر ہم سچ کو پہچان سکیں۔

ڈاکٹر ہلوک نور باقی
ابھی کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ اس کے سواء کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ ایک طبی معجزہ ہے۔ اسی وجہ سے آیت کریمہ کا آخری حصہ میں یہ ارشاد ہوا کہ ’’اگر تم سمجھو تو‘‘۔
جیسا کہ ہم پہلی آیات کے سلسلے میں کہہ چکے ہیں، اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے۔ نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ایک دوسرے سے قریبی طورپر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہم اعضاء جیسے کہ منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی ALIMENTARY CANAL (یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی)، معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ تمام اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پزیر ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں، یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں، یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گھس جاتا ہے۔
روزہ ایک طرح سے اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے۔ کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار ساری رات عمل کے لئے پہرہ پر کھڑا ہو۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت کا اخراج ہضم کے لئے ہوتا ہے، مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتا ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

دوسری طرف روزہ کے ذریعہ جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزہ کے بغیر قطعی ناممکن ہے، کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا نظام ہضم کا کمپیوٹر اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ تو ہونا ہی چاہئے۔جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے، متعدد طبی معائنوں کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو بولنے کی طاقت حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ ’’تم مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعہ ہی کرسکتے ہو‘‘۔
جگر پر روزے کی برکات میں سے ایک وہ ہے، جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے، جو غیر ہضم خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمہ کو اسٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعہ اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہو جانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ روزہ کے ذریعہ جگر توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے۔ اس طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن GLOBULIN کی پیداوار پر صرف کرسکتا ہے۔ گلوبلن جسم کو محفوظ رکھنے والے IMMUNE سسٹم کو تقویت دیتا ہے۔
روزہ کے ذریعہ گلے اور خوراک کی نالی کو جو انسانی جسم کے بے حد حساس حصے ہیں، انھیں آرام ملتا ہے۔ روزہ ایک ایسا قدرتی تحفہ ہے کہ جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔انسانی معدہ روزے کے ذریعہ جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے، وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طورپر متوازن ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت ACIDITY جمع نہیں ہوتی۔ اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے، لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے۔ اس طریقے سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینہ میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے، ان کے دعووں کے برخلاف یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے۔
روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے، جیسے انتڑیوں کا جال۔ روزہ کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے، اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں، جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہو سکتے ہیں۔