روزگار پر نیتی آیوگ کی رپورٹ

تم اپنے وقت کے فرمانروا سہی لیکن
ہمیں بھی آتا ہے تھوڑے پہ اکتفا کرنا
روزگار پر نیتی آیوگ کی رپورٹ
مرکزی ادارہ نیتی آیوگ نے گذشتہ تین سال کے حالات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ ادعا کیا گیا ہے کہ بیروزگاری ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاں مسئلہ کم اجرتوں کا ہے ۔ نیتی آیوگ نے ‘ جسے منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کرتے ہوئے قائم کیا گیا تھا ‘ اس رپورٹ میں ادعا کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں کچھ مسائل ہیں اور ہندوستان میں بھی ایسی صورتحال ہے تاہم ادارہ کی رپورٹ میں یہ ادعا کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں بیروزگاری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اجرتیں کم دی جاتی ہیںاور ضرورت اس بات کی ہے کہ قابل لحاظ اجرتوں والے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ نیتی آیوگ کی یہ رپورٹ در اصل ملک میں کروڑ ہا بیروز گار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں مرکزی حکومت کی ناکامی کو چھپانے کی ایک کوشش ہی کہی جاسکتی ہے ۔ گذشتہ تین سال کے دوران حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انتہائی معمولی تعداد میں روزگار فراہم کئے گئے ہیں۔ بی جے پی نے گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل عوام سے یہ وعدے کئے تھے کہ سالانہ دو کروڑ روزگار نوجوانوں کو فراہم کئے جائیں گے ۔ اس محاذ پر حکومت پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ حکومت یہ بتانے کے موقف میں بھی نہیں ہے کہ اس نے اب تک اپنی تین سال سے زائد معیاد کی تکمیل کے دوران کتنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بی جے پی اور اس کے ذمہ داروں کی جانب سے اپنے وعدوں کی عدم تکمیل پر عوام کو گمراہ کرنے کیلئے نت نئے انداز اختیار کئے جاتے ہیں۔ جس طرح اچھے دن کے نعرے کو فراموش کردیا گیا اور کالا دھن واپس لا کر عوام کے کھاتوں میں رقومات جمع کروانے کی بات کہی گئی تھی اس کو جملہ قرار دیتے ہوئے خود کو بری الذمہ کرلینے کی کوشش کی گئی تھی اسی طرح اب بی جے پی کی جانب سے 2022 تک نئے ہندوستان کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا ہے اور وعدہ بھی عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اب نیتی آیوگ کی رپورٹ کے ذریعہ سے عوام کے ذہنوںکو دوبارہ گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ جو روزگار یا ملازمتیں ہیں ان پر زیادہ اجرتیں دئے جانے کی ضرورت ہے ۔
آج سارا ہندوستان جانتا ہے کہ نریندر مودی حکومت نوجوانوں کی امیدوں اور توقعات کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے عوام کی توجہ دوسرے مسائل کی جانب مبذول کروادی گئی ہے ۔ انہیں بیف کے استعمال ‘ حب الوطنی کے دعووں اور دوسرے ایسے مسائل میں الجھا دیا گیا ہے جن کا ملک کی ترقی یا خود نوجوانوں کی بہتری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ سب نزاعی اور اختلافی مسائل ہیں۔ تین طلاق پر حکومت سرگرم ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کیلئے حکومت کوشش کر رہی ہے ۔ جموں و کشمیر کںو خصوصی موقف دینے والے دستور کے دفعہ کے تعلق سے چہ میگوئیاں شروع کروادی گئی ہیں۔ دینی مدارس میں ترنگا پرچم لہرانے یا نہ لہرانے کا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے اور ترنگا نہ لہرانے پر سزائیں دینے تک کا اعلان کردیا گیا ۔ یہ سب کچھ ایسے مسائل ہیں جو ہم داخلی طور پر جب چاہے ایک دوسرے سے مشورے اور اتفاق رائے سے حل کرسکتے ہیں لیکن جہاں تک ملک و قوم کی ترقی کا مسئلہ ہے اس پرحکومت نہ صرف یہ کہ خود خاموش ہے بلکہ وہ اس جانب عوام کی توجہ بھی ہٹانے میں کامیاب ہے ۔ وہ نہیں چاہتی کہ ملک کے عوام اس سے انتخابی وعدوں کے تعلق سے سوال کریں۔ حکومت یہ جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے کہ تین سال کے دوران سالانہ اساس پر کتنے روزگار فراہم کئے گئے اور اب تک فراہم کردہ ملازمتوں کی جملہ تعداد کیا ہوگئی ہے ۔ اس سے کتنے خاندان کا بھلا ہوا ہے اور کتنے خاندانوں کو خط غربت سے نچلی زندگی سے اوپر لایا گیا ہے ۔ ان سب کاموں میں حکومت کی کوشش کتنی کامیاب رہی ہے ۔
مرکزی حکومت ہو یا بی جے پی ہو یا اس کے ذمہ داران ہوں وہ ابھی تک ملک کے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانے ہی میں مصروف ہیں۔ اب اچھے دن کے نعرہ اور روزگار کے وعد ہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے دوسرے نعرے دئے جا رہے ہیں۔ پہلے کئے گئے وعدوں کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے اور حکومت نہیں چاہتی کہ عوام بھی ان وعدوں کو یاد رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنے انداز میں صرف تشہیری ہتھکنڈوں کے ذریعہ آگے بڑھ رہی ہے ۔ نیتی آیوگ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس قومی سطح کے حالات کا ڈاٹا ہوتا ہے اور اسے پوری دیانتداری کے ساتھ بیروزگاری کے مسئلہ پر حقائق کو پیش کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ دعوی تک کردیا کہ ملک میں بیروزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ حقیقت سے صریح انکار ہے اور کروڑ ہا روزگار فراہم کرنے کے وعد ے سے حکومت کا عملا فرار ہے جس کا عوام کو نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔