روحِ خداوندی کی بدولت انسان مخلوقات میں ممتاز

انسان اﷲ تعالیٰ کی خاص مخلوق ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور اس میں اپنی روح پھونکی ہے جس کی وجہ سے یہ مسجود ملائک بنا ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ اے نبیؐ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ، پھر جب اُسے پوری طرح ٹھیک ٹھاک کرکے بنادوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گرجانا ، چنانچہ فرشتے سب کے سب سجدے میں گرگئے، مگر ابلیس نے تکبر کیا اور انکار کرنے والوں میں سے ہوگیا( اﷲ تعالیٰ نے ) کہا : اے ابلیس تجھے کس چیز نے (آدم کو) سجدہ کرنے سے روکا جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ کیا تو بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہے یا بہت اونچی ہستیوں میں سے ہے ؟ ‘‘۔ (سورۃ ص)
اور ایک دوسرے مقام پر خود انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اس نے جو چیز بھی بنائی خوب بنائی ، اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی پھر اس کی نسل ، ایک نچوڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کرکے اس میں اپنی روح پھونکی ، اور تم کو کان دیئے ، آنکھیں دیں اور دل دیئے مگر تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ‘‘۔ (سورۃ السجدہ)
قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات تخلیق انسانی کی مکمل صراحت کررہی ہیں۔ یہاں دو تین باتیں خاص طورپر سمجھ لینا چاہئے ۔ ان آیات سے تخلیق انسانی کے تین مراتب معلوم ہوتے ہیں ۔
۱: ایک یہ کہ انسان کی تخلیق گارے اور مٹی سے ہوئی ہے ۔

۲۔ دوسرے یہ کہ تسویہ ( صورت گری) یعنی اس کو نِک سُک سے درست کیا ، اس کے تمام اعضاء و جوراح میں تناسب و اعتدال قائم کیا۔
۳۔ تیسرے یہ کہ مٹی کے اس پتلے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی روح پھونک دی یہی وہ روحِ خداوندی ہے جس سے انسان اﷲ تعالیٰ کا پرتوِ ذات و صفات بن گیا۔
روحِ خداوندی کی بدولت انسان فکر و شعور ، عقل و خرد ، قوت فیصلہ اور ارادہ و اختیارات کا حامل ہوا ہے اور اسی روح کی بدولت وہ تمام مخلوقات سے ممتاز ہوکر حامل امانت اور لائق خلافت بناہے ۔ اس کے اوصاف کاسرچشمہ ، اس کا مادی جسم نہیں بلکہ روحِ خداوندی ہے ۔ اﷲ کی حیات سے اسکو حیات ملی ، اﷲ کے ارادے سے اس کو ارادہ ملا، اﷲ ہی کے علم سے اس کو علم ملا ، اﷲ ہی کی قدرت سے اس کو قدرت ملی ، اُسی کی سماعت سے سماعت ملی ، اُسی کی بصارت سے بصارت ملی ، حواس خمسہ یعنی سامعہ ، باصرہ ، لامہ ، ذائقہ اور شامہ اس کے ذرائع علم ہیں، ان ہی ذرائع سے انسان علم حاصل کرکے معلومات سے نتائج اخذ کرتا ہے ۔ یہ کام فواد یعنی دل کا ہے جس سے ذہن انسانی (Mind) مراد ہے جس سے عقل و خرد کی رونی میں وہ فیصلے کرتا ہے ۔ ایک صوفی منش شاعر (امجدؔ حیدرآبادی) نے اپنے مخصوص انداز میں یہی بات کہی ہے :
اس سینہ میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکرِ صفات ، ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی، جاہل سہی، نادان سہی
سب کچھ سہی ، تیری بات رکھ لی میں نے
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ہمارے سامنے دو دنیائیں آتی ہیں ۔ ایک خارجی دنیا ، جسے ’’آفاق‘‘ کہا جاتا ہے اور ایک داخلی دنیا جسے ’’انفس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ان دونوں دنیاؤں میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں اس کثرت سے بکھیردی ہیں کہ انسان اُن کو دیکھ تو سکتا ہے لیکن گن نہیں سکتا اور اﷲ تعالیٰ نے انہی دونوں دنیاؤں میں اپنی نشانیوں کو دیکھنے کی دعوت دی ہے اور انہی دونوں دنیاؤں میں اﷲ تعالیٰ اپنی نشانیاں دکھلاتے بھی ہیں تاکہ انسان پر حقیقت کھل جائے ۔
اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ’’ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق(یعنی خارجی دنیا ) میں بھی دکھائیں گے اور انفس (داخلی دنیا یعنی خود ان کے اپنے وجود) میں بھی تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہی حق ہے ‘‘۔ (سورۃ حٰم السجدہ ) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ’’اہل یقین کے لئے زمین میں ہماری نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں ‘‘ ۔ (ذاریات)
ان دونوں آیتوں پر غور کیجئے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خارجی دنیا یعنی آفاق کی نشانیاں تو بداہتہً نظر آجاتی ہیں لیکن داخلی دنیا یعنی انفس کی نشانیاں بداہتہً نظر نہیں آتیں بلکہ انھیں اپنے ارادے اور اختیار سے جدوجہد کرکے دیکھنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر کیسے دیکھیں؟ صوفیہ کرام کی تحقیق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کے مادی جسم ہی میں کچھ کھڑکیاں ایسی رکھ دی ہیں جو روحانی دنیا میں کھلتی ہیں۔ اگر ان کھڑکیوں سے دیکھا جائے تو وہاں سے پوری روحانی دنیا نظر آتی ہے اور چاروں عالم کھل کر سامنے آجاتے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں ہیں۔