رمضان المبارک احادیث پاک کی روشنی میں

 

رمضان المبارک عظمت وشان والا مہینہ ہے،رمضان ’’رمض‘‘سے ماخوذہے،اس کے کئی معنی بتائے گئے ہیں،اس ماہ مبارک سے زیادہ مناسبت رکھنے والے معنی وہ ہیں جس کورسول اکرم ﷺ نے حدیث پاک میں بیان فرمایاہے۔رمضان کو اس لئے رمضان کہاجاتاہے کہ وہ گناہوں کوختم کردیتاہے ’’انما سمی رمضان لان رمضان یرمض ذنوب عباد اللّٰہ (مرقاۃ:۴؍۲۲۸) یعنی رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں اسکی قدرکرنے والوں کے گناہوں کواس طرح ختم کردیتی ہیں جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کوجلاکر بھسم کردیتی ہے۔بعضوں نے ’’رمضائ‘‘سے ماخوذماناہے،عربی زبان میں گرماکا موسم ختم ہوکربارش کے آغازہونے کو رمضاء کہاجاتاہے،جیسے بارش کے قطرات آلودگی اورگردوغبارختم کرکے فضاء کو پاکیزہ وشفاف بنادیتے ہیں اسی طرح ماہ رمضان المبارک کے روزے اوراس میں کی جانی والی عبادات روحانی بارش کی مانند ہیں جس سے گناہوں کے میل وکچیل ،نافرمانیوں کی گردوغبارسے روزہ دارکا دل آئینہ کی مانندصاف وستھرا ہوجاتاہے۔

جب ماہ رمضان المبارک آتاہے توجنت کے ایک اورروایت کے مطابق رحمتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں،دوزخ کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں،اورشیاطین پابہ زنجیرکردئیے جاتے ہیں’’ (بخاری:۳۰۳۵)رمضان کی جب پہلی شب شروع ہوتی ہے شیاطین اورسرکش جن قیدکردئیے جاتے ہیں ،دوزخ کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں ،کوئی دروازہ ان میں کھلا نہیں رہتا،جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہنے پاتا،نداء دینے والا اللہ کی طرف سے نداء دیتاہے :اے خیرونیکی کے طلب گارو!آگے قدم بڑھائو،اوراے شرپسندو!شرسے رک جائو،بہت سے گنہگاربندوںکودوزخ سے رہائی کا پروانہ دیا جاتاہے،یعنی ان کی بخشش ومغفرت کردی جاتی ہے اوریہ سلسلہ ماہ رمضان کی تمام راتوں میں جاری رہتاہے (ترمذی:۶۱۸)
ابن آدم کے ہرنیک عمل کا ثواب دس گنا سے سات سوگناتک بڑھاکردیاجاتاہے،مگراللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے کہ روزہ بندہ نے میرے لئے رکھاہے میں ہی اس کا اجروثواب دوں گا،کیونکہ میری خوشنودی کیلئے بندہ اپنے خواہش نفس اورکھانے پینے سے دست کش ہوجاتاہے۔روزہ دارکیلئے دوخوشیاں ہیں:ایک خوشی افطارکے وقت ،اوردوسری خوشی اپنے مالک ومولی سے بروزحشرلقاء وملاقات کے وقت ،قسم ہے روزہ دارکے منہ کی بواللہ سبحانہ کومشک سے زیادہ محبوب ہے۔روزہ ڈھال یعنی نفس وشیطان کے حملوں سے بچائو کا اور روز حشر دوزخ کی آگ سے حفاظت کاذریعہ ہے،جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتوچاہیئے کہ وہ فحش اوربری باتوں اورشوروشرابے سے سخت پرہیزکرے، اگرکوئی دوسرا گالی گفتاریا لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوتو یہ کہے کہ میں روزہ دارہوں (بخاری:۱۸۹۷،مسلم:۱۰۲۷)
اس حدیث پاک میں ایمان والوںکیلئے کئی ایک انعامات کا وعدہ ہے،حدیث پاک کے آخرمیں جن اخلاقی خرابیوں سے روزہ دارکوبچنے کی تلقین کی گئی ہے یہ تو روزہ کا مقصود ہے، روزہ انسان کوایسا متقی وپرہیزگاربنائے کہ اسکا دل ودماغ پاکیزہ ہوجائے،زبان وبیان میں بھی لطافت و شگفتگی آجائے۔جب بات کرے تو گفتگوسے خوشبو آئے ،سننے والوں کویو ںمحسوس ہوکہ زبان سے الفاظ نہیں بلکہ ہیرے ،موتی جھڑرہے ہیں،انسان کی کامیابی اورمعاشرہ کی پاکیزگی میں اس کا بڑارول ہے،انسان کاپاکیزہ رکھ رکھائو،حسن کلام انسانوں کے دل جیت لیتاہے ،اوریہ اللہ سبحانہ کو بہت پسند ہے۔اسی لئے حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو دعوت حق پہنچانے کیلئے اپنے دشمن فرعون کے پاس جانے کی ہدایت دیتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اس سے نرم انداز میں گفتگوکریں ،ظاہرہے جہاں شیریں کلامی اورنرم خوئی کی صفت باعث پسندیدگی ہے وہیں تندمزاجی ،سخت کلامی ودرشتگی سخت ناپسندیدہ ہے۔توپھرگالی گفتار،گندی وفحش گفتگو،شوروشغب جیسی بدخلقی کی شناعت کا خود اندازہ کرلیا جاسکتاہے ،اس لئے روزہ دارکواگرکسی بدکردارسے سابقہ پڑجائے تو’’انی امرأصائم‘‘کہہ کراپنا دامن چھڑانے کی ہدایت دی گئی ہے۔اس میں نفس ودہن کی پاکیزگی،کردارواعمال کی خوبی،اوربرائی کا جواب اچھائی سے دینے کا ایک بہت بڑا پیغام ہے جوروزہ کے ذریعہ انسانوں کو دیا جارہاہے۔

رمضان المبارک کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھنے والوں کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے،اسی طرح ماہ رمضان کی راتوں میں اورایسے ہی لیلۃ القدرمیں ایمان واحتساب کی کیفیات کے ساتھ قیام یعنی تراویح ،تہجدودیگرنوافل کا اہتمام کرنے والوں کیلئے یہی بشارت ارشادفرمائی گئی ہے(شعب الایمان :۳۶۱۳)ایمان واحتسا ب قبولیت اعمال اوربخشش ومغفرت کی بنیادی شرط ہے،یعنی طاعت وعبادت اوراعمال صالحہ کی بنیاداللہ سبحانہ کی معرفت اوررسول اکرم ﷺکونبی ورسول ماننے اوراللہ سبحانہ کے وعدہ ووعیدپریقین رکھتے ہوئے اسکے اجروثواب کی امیدوطمع اوراسکی ناراضگی اورآخرت کی جوابدہی کا ڈراورخوف ہو۔ جنت کے دروازوں میں سے ایک خاص دروازہ کا نام ’’ریان‘‘ہے ،اس دروازہ سے روزحشرصرف روزہ دارہی داخل ہوسکیں گے،اس دن نداء دی جائے گی کہ کہاں ہیں وہ اللہ کے بندے جو اللہ سبحانہ کی رضاء کیلئے روزہ رکھاکرتے تھے اوربھوک وپیاس کی مشقت برداشت کرتے تھے۔یہ نداء سن کرروزہ دارآگے بڑھیں گے پھراس دروازہ سے کسی اورکوداخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی،سارے روزہ دارجب اس دروازہ سے جنت میں داخل ہوجائیں گے تواس دروازہ کو بندکردیا جائے گاپھرکسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا(بخاری:۱۷۷۰)جوروزہ تورکھے لیکن جھوٹ اورلغوبات چیت اورلغو وباطل اعمال سے پرہیزنہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی چنداں ضرورت نہیں،یعنی سارے اعضاء وجوارح کومعاصی ومنکرات سے نہ بچاپائے توروزہ رکھتے ہوئے بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی حاصل نہیں۔
قرآن پاک کا نزول ماہ رمضان المبارک میں ہواہے(البقرۃ:۱۸۵)پھررمضان المبارک میں بھی خاص قدروالی رات میں اس کا نزول ہواہے(القدر:۱) اس لئے ماہ رمضان المبارک سے قرآن پاک کوخصوصی مناسبت ہے۔بلکہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت بھی گویا ایک طرح سے نزول قرآن کا شکرانہ ہے،حدیث پاک میں وارد ہے’’روزہ اورقرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے ،روزہ آگے بڑھ کر کہے گا ،اے میرے رب میں نے اس بندہ کو کھانے پینے اورجائزخواہشات نفس سے روکے رکھاتھا،اس بندہ کے حق میں آج میری شفاعت قبول فرمالیں،پھرقرآن آگے بڑھ کر کہے گا ،اے میرے رب میں نے اس کو رات سونے اورآرام کرنے سے روکے رکھا تھا ،اے مولی اسکے حق میں میری شفاعت قبول فرمالے،چنانچہ روزہ اورقرآن دونوں کی شفاعت اس بندہ کے حق میں قبول کرلی جائے گی‘‘(شعب الایمان :۱۸۳۹)

روزہ کی اہمیت اوراسکی قدروقیمت کا اندازہ اس حدیث پاک سے ہوتا ہے، ارشاد ہے ’’جو کوئی کسی شرعی عذرکی بنا حاصل ہونے والی رخصت اورکسی مرض وبیماری کے بغیررمضان کا ایک روزہ ترک کردے اوراسکی تلافی کیلئے زندگی تمام روزہ رکھے ،تمام زندگی کے روزے مل کرقصداچھوڑے ہوئے رمضان المبارک کے ایک روزہ کی تلافی نہیں کرسکیں گے‘‘(ترمذی :۶۵۵)

رمضان المبارک کی برکتوں سے محروم بدبخت ہے،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منبرسے قریب ہونے کا حکم دیا،اورجب سب قریب ہوگئے تو آپ ﷺنے منبرکی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا توفرمایا :’’آمین‘‘پھردوسری سیڑھی پرقدم رکھاتو پھرفرمایا ’’آمین‘‘اورتیسری سیڑھی پرقدم رکھتے ہوئے بھی آپ ﷺ نے ’’آمین‘‘فرمایا۔صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا :یا رسول اللہ (ﷺ)ہم نے آج تک کبھی ایسا نہیں سنا ،آپ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جب پہلے درجہ میں نے قدم رکھا تو اس وقت جیرئیل امین علیہ السلام آئے اورانہوں نے بددعاء دی ،وہ شخص ہلاک ہوجس کورمضان المبارک کا مہینہ ملا پھربھی اس نے اپنی مغفرت کا سامان نہیں کرلیا تو میں نے آمین کہا،پھرمیں نے جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا توانہوں نے کہا وہ شخص بربادہوجس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکرمبارک آئے اوروہ آپ ﷺ درودپاک نہ بھیجے میں کہا آمین،پھرجب تیسرے درجہ پر قدم رکھا توانہوں نے کہا وہ شخص بھی ہلاک ہوجواپنے والدین کو یا ان میں سے کسی کو ان کی ضعیفی کے زمانہ میں پائے اوروہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائے ،تومیں نے کہا آمین ۔ اس حدیث پاک سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ماہ رمضان کی برکتوں سے محرومی کیسی شقاوت وبدبختی ہے ،یہ بھی کہ سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکی ذات اقدس کس قدراللہ کومحبوب ہے اوراس میں یہ رمزبھی ہے کہ جوآپ ﷺکواپنا محبوب نہ بنائے وہ کیسا بدبخت وشقی ہے ،آپ ﷺکی محبت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب بھی آپ ﷺ کا نام نامی اسم گرامی لب پر آجائے یا اسکی سماعت کی نعمت نصیب ہوجائے توضروربے ساختہ درودپاک وردزباں ہوجائے۔والدین کی عظمت ومرتبت اوران کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی کیا جاسکتا ہے،اولاد کی سعات یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگ والدین کی دل سے خدمت کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالے ورنہ جواولاد اس سعادت سے محروم رہ جائے اسکی محرومی کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔