رضیہ سلطانہ پہلی مسلم خاتون حکمران

ہندوستان پر ( 1206 ء سے 1290 ء تک ) خاندان غلاماں نے 84 سال تک حکومت کی ۔ اس خاندان کا پہلا بادشاہ قطب الدین ایبک تھا ، لوگ اسے لک بخش ( لکھ داتا ) کہتے تھے ۔ التمش اس خاندان کا تیسرا بادشاہ تھا جو اپنے خاندان کے تمام فرمانرواؤں میں بڑھ کر مشہور ہوا ۔ اس نے 25 برس تک حکومت کی ۔ رضیہ بیگم ، التمش کی بیٹی تھی جو تاریخ میں رضیہ سلطانہ کے نام سے معروف ہوئی ۔
وہ مسلم  پہلی خاتون حکمران اور شمس الدین التمش کی جانشین تھی ، تاہم ترک اشرافیہ نے اس کی حکومت کو دل سے قبول نہ کیا اور شمس الدین التمش کی موت کے بعد اس کے سب سے بڑے بیٹے رکن الدین فیروز شاہ کو تخت پر بٹھایا لیکن جلد ہی واضح ہوگیا کہ التمش نے اپنے بیٹوں کے بجائے بیٹی کو جانشین بنانے کا فیصلہ کیوں کیا تھا ۔ رکن الدین نے حکومتی معاملات اپنی ماں شاہ تر خان کے ہاتھ میں دے دیئے اور خود لہو و لعب میں محورہنے لگا ۔ جلد ہی ایک بغاوت میں شاہ تر خان اور رکن الدین مارے گئے ۔ اب اشرافیہ نے رضیہ سلطانہ پر نظر عنایت کی اور 1236 ء میں اسے تخت پر بٹھایا ۔ رضیہ سلطان کو ہندوستان کی تاریخ میں کافی رومانوی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ رضیہ نہایت زیرک حکمران ثابت ہوئی ۔ فوج اور دہلی کے عوام اپنی ملکہ کے ساتھ تھے ۔ طاقتور گورنرز کی شورش کے باعث اسے ہرممکن حمایت حاصل کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس نے سیاسی داؤ پیچ استعمال کر کے جلد ہی باغیوں کو آپس میں لڑادیا ۔ گورنر ملک اختیار الدین التونیا نے رضیہ سلطانہ کی حاکمیت ماننے سے انکار کردیا ۔ اور التونیا نے رضیہ سلطانہ کو قید میں ڈال دیا ۔ رضیہ سلطانہ نے جان بچانے کی خاطر التونیا سے شادی کا فیصلہ کیا ۔ اس دوران رضیہ سلطانہ کے بھائی بہرام کو دہلی میں سلطان نامزد کردیا گیا ۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ دہلی پر یلغار کی مگر یہ بے سود ثابت ہوئی ۔ 13 اکٹوبر 1240ء کو بہرام نے رضیہ سلطانہ کو شکست دی اور اگلے روز شوہر سمیت مروادیا ۔ رض؁ہ سلطانہ کی قبر پرانی دہلی کی تنگ گلیوں میں ، بلبل خانہ شاہجہاں آباد ( نزد ترکمان گیٹ ) کے احاطے میں واقع ہے ، اردگرد رہائشی مکانات بنے ہیں ۔ پہلے اس علاقے میں جنگل ہوا کرتا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ رضیہ سلطانہ کی لاش یہاں کیسے لائی اور دفنائی گئی ۔ پہلو میں اس کی بہن شازیہ کی قبر بھی ہے ۔ کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ رضیہ سلطانہ کی قبر ریاست ہریانہ کے شہر کیتھل میں ہے ۔