رضان کی موت پر غزہ میں غم او رغصہ کی لہر۔ ویڈیو

ایک اسرائیلی نشان باز نے میڈیکل والینٹر رضا ن النجار کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا جب وہ ایک زخمی احتجاجی کو بچانے کی کوشش کررہی تھیں
غزہ پٹی خان یونس۔ اپنی بیٹی کو آخری مرتبہ زندہ دیکھنے کی بات کو یاد کرتے ہوئے صبرین النجار زار وقطار روپڑی۔جنوبی غزہ پٹی کے خوزہ میں واقعہ اپنے گھر میں بیٹھی 43سالہ مذکورہ ماں نے کہاکہ’’ اس نے کھڑے ہوکر میری جانب مسکرا کرد یکھا اور کہاکہ وہ احتجاج کی نگرانی کررہی ہے‘‘۔

یہ احتجاج مارچ میں شروع ہوئے گریڈ مارچ آف ریٹرن کا حصہ تھا جو دسویں جمعہ کے دوران اسرائیلی سرحد کے پر محروس فلسطینیوں کی جانب سے منعقد کیاگیاتھا۔ صبرین کی بیٹی 21سالہ رضان ان میں شامل تھی ‘ وہ بطور طبی عملے کے وہاں پر ان کے لئے متعین تھی جنھیں اسرائیلی نشان باز اپنی گولیاں کو نشانہ بنارہی تھے۔ہفتہ کے روز صبرین نے کہاکہ ’’ پلک جھپکتے ہیں وہ دروازے کے باہر چلے گئی۔

میں دوڑ کر گھر کی بالکونی میں گئی تاکہ اس کو دیکھ سکوں مگر تب تک وہ گلی پار کرچکی تھی‘‘۔ اس وقت ماں کے اطراف میں پڑوسی او روہ لوگ بیٹھے تھے جن کارضان نے احتجاج کے دوران زخمی ہونے پر علاج کیا تھا۔ صبرین نے کہاکہ ’’ ایک پرندے کے مانند میں وہ میرے سامنے سے آڑ گئی‘‘۔

خوزہ کے احتجاجی مقام پر عینی شاہدین کے مطابق جمعہ کے روز رضان سرحد کے قریب طبی ٹیم کا لباس زیب تن کئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر اسرائیلی فوج جو ایک سو یارڈس کے فاصلے پر متعین تھے کو اس بات کا اشارہ کررہی تھی کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے

۔رضان کا مقصد صرف احتجاج کے دوران سرحد کے قریب میں زخمی ہوئے احتجاجیو ں کو بچانا تھا ۔بجائے اس کے رضان کے سینے میں زندہ کارتوس ٹھونس دیا گیا۔ ایل گولی متوفی رضان کے کمر میں بھی لگی ۔ اس موت کے ساتھ رضان احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج کی گولیو ں کو شکار ہونے والے 119ویں فلسطینی بن گئی۔تیرہ ہزار سے زائد اس احتجاج میں زخمی ہوئے ہیں جس کا مقصد 1948کے بعد جن فلسطینیو ں کو ان کے گھر سے بے دخل کردیاگیا ہے ان کی واپسی کے لئے احتجاج منظم کرنا ہے۔

ایک او رطبی ٹیم کے کارکن ریدا نجار نے کہاکہ جب رضان کو گولی ماری گئی تو وہ اس کے قریب میں کھڑی ہوئی تھی۔ مذکورہ 29سالہ طبی والینٹر کو رضان کی رشتہ دار نہیں ہے نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہم جیسے ہی سرحد کے قریب احتجاجیوں کو بچانے کے لئے گئے‘ مذکورہ اسرائیلوں نے ہم پر آنسو گیس کے شل داغے۔

پھر ایک نشانہ باز نے گولی چلائی جس راست طور پر رضان کو لگی۔ گولیوں کے تکڑے سے ٹیم کے دیگر تین ممبرس بھی زخمی ہوئے‘‘۔ انہو ں نے کہاکہ ’’ رضان کو پہلے تو گولی لگنے کا احساس نہیں ہوا ‘ مگر اس نے رونا شروع کردیا میری کمر میری کمر!‘ پھر وہ زمین پر گر گئی‘‘۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہمارے پہنوائی اور ہاتھوں پر بندھی پٹیوں اور ہمارے بیگس سے یہ صاف تھا کہ ہم کون ہیں‘‘۔انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’ ہمارے اطراف میں کوئی دوسرے احتجاج نہیں تھے سوائے ہمارے‘‘۔

الجزیرہ کودئے گئے انٹریو میں20اپریل کو رضان نے کہاکہ ’’ احتجاج کے موقع پر موجودگی ’’میری ذمہ داری او رڈیوٹی ہے‘‘ تاکہ میں احتجاجیو ں اورزخمیو ں کی مدد کرسکوں۔انہوں نے کہاتھا کہ ’’ اگر اسرائیلی فوج کا منشاء کئی ساروں کوگولی مارنے کا ہے تو وہ کریں‘‘۔ ا

س وقت رضان نے کہاتھا کہ ’’ یہ جنونی اور میرے لئے باعث شرم بات ہوگئی اگر میں اپنے لوگوں کے لئے وہاں پر موجود نہیں رہوں‘‘۔ رضان نے دوسرے کام کے بجائے طبی ٹیم میں شامل ہونے کو ترجیح دی ۔ وہ 13گھنٹوں تک مسلسل کام کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں ’’ خواتین میں فیصلے لینے کی صلاحیت ہے مگر سماج اس کو قبول نہیں کرتا‘‘۔صبرین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی مارچ30شرو ع ہوئے احتجاج کے زخمیوں کی مدد کے لئے ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے۔

اس سے قبل بھی وہ خان یونس کیمپ ایسٹ غزہ پٹی کی سرحد کے قریب میں پیش ائے تصادم کے دوران بھی وہ سب سے آگے تھی۔ صبرین نے کہاکہ ’’ اس نے کبھی نہیں سونچا کے لوگ کیاکہیں گے۔ اس نے ہمیشہ اپنے کام پر توجہہ مرکوز کی ‘ جو اس کے حوصلے او رطاقت کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ میری بیٹی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا ‘ وہ طبی عملے میں تھی۔ اس نے اپنے لوگوں کے لئے بہت کچھ کیاہے‘‘۔

سابق میں زمین پر کام کرنے والی میڈیکل ٹیم نے الجزیرہ کو بتایاتھا کہ احتجاجیوں پر گولیاں چلانے کا اسرائیلی فوج نے نیا طریقہ اختیار کیاہے۔ جس کو ’’بٹر فلائی بولیٹ‘‘اثر کے ساتھ اس میں دھماکہ ہوتا ہے رگوں اور ہڈیوں کو تک نقصان پہنچاتا ہے جس کی وجہہ سے کافی اندرونی زخم آتے ہیں۔ صبرین نے کہاکہ ’’ جان بوجھ کر اس کو دھماکہ خیز گولیوں سے قتل کیاگیا ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہے‘‘۔

انہو ں نے کہاکہ یہ کہتے ہوئے خاموشی اختیا رکرلی کہ’’ میں اقوام متحدہ سے اس قتل کے معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ خاطیوں کو سزا دی جاسکے‘‘۔ انہو ں نے اسرائیلی فوج کو ’’ بربریت والی او رناقابل معافی ‘‘ قراردیا۔انہو ں نے کہاکہ ’’ میں اسی شادی کے جوڑے میں دیکھنا چاہتی تھی نہ کہ کفن میں‘‘۔

فلسطین کی وزرات صحت نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاکہ وہ اسرائیلی فوج غیرمصلح لوگوں کو جمعہ کے روز خوزہ میں نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ’’ ایک طبی ٹیم جو سفید میڈیکل لباس زیب تن کئے زخمیوں کو بچانے کی کوشش کرنے والے لوگ‘‘ شکارہوئے ہیں۔وزرات کے ترجمان اشریف القدرہ نے مزیدکہاکہ جمعہ کے روز احتجاج میں ایک سوسے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں جس میں چالیس لوگ زندہ کارتوس کانشانہ بنائے گئے۔

جبکہ دیگر آنسو گیس شل کی وجہہ سے زخمی ہوئے ہیں۔ ورلڈ ہلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 238صحت سے جڑے لوگ اور 38ایمبولنس کو اسرائیلی فو ج نے گریڈ مار ریٹرن تحریک کی شروعات کے بعد اپنا نشانہ بنایا ہے۔ خوزہ میں رضان کے جلوس جنازہ جو ہفتہ کے روز تھا اس میں ہزاروں لوگوں شریک ہوئے۔

سوشیل میڈیا پر گشت کررہے ویڈیوز میں صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اسپتال میں رضان کی نعش کو دیکھ کر کس طرح زار وقطار رورہے تھے۔ ٹوئٹر پر ’’ رحمت کا فرشتہ‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بڑے پیمانے پر استعمال کیاجارہا ہے جس میں سارے دنیاکے صارفین اس قتل کی مذمت کررہے ہیں۔

ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے رضان کی موت کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے حماس کو غزہ پٹی میں احتجاجیو ں کواکسانے کا بھی ذمہ دارٹھرایا ہے۔