رشوت خور کی دعوت کا حکم

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ایک شخص جو گورنمنٹ ملازم ہواور وہ رشوت لیتا ہو تب اس کی دی ہوئی دعوت قبول کرنا چاہئے یا نہیں ۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر وہ دس ہزار کماتا ہو اور وہ تنخواہ کا آدھا حصہ ہو یعنی پانچ ہزار رشوت لے تو اس کی دعوت قبول کیجاسکتی ہے ۔ ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا شریعت اسلامی میں اکل حلال کی بڑی تاکید ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد آیتوں میں اکل حلال کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہے ’’ یایھاالرسل کلوا من الطیبٰت واعملوا صالحاً ‘‘ (سورۂ مؤمنون ۵۱) اے پیغمبرو! پاکیزہ رزق کھاو اور نیک عمل کرو ۔ ’’ یٰأیھاالذین آمنوا کلوا من طیبٰت ما رزقنٰکم ( سورۂ بقرہ۱۷۲) اے ایمان والوا! پاکیزہ رزق کھاو جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اس کی تلقین فرمائی ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں یہ آیت شریفہ تلاوت کی گئی ’’ اے لوگو ! جو زمین میں حلال و پاکیزہ رزق ہے کھاؤ (سورۂ بقر۱۶۸۰) تو حضرت سعد بن ابی وقاص کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ میں مستجاب الدعوات بن جاؤں تو آپ نے فرمایا : اے سعد ! اپنے کھانے کو پاکیزہ کرو تم مقبول مناجات ہو جاؤ گے‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے جب بندہ اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو اس کے چالیس روز کے اعمال مقبول نہیں ہوتے ۔ اور جو گوشت حرام مال سے بنتا ہے وہ حصہ دوزخ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے ۔ طبرانی فی الصغیر بحوالہ الترغیب والترھیب : ج ۲
متذکرہ بالا تفصیلات کی روشنی میں ہر مسلمان پر اکل حلال کیلئے حتی المقدور کوشش کرنا واجب ہے ۔ نصوص قطعیہ سے رشوت کی حرمت ثابت ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے کو دوزخی بتلایا ہے ۔ ’’ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار‘‘ (حدیث)
اس لئے اگر کوئی رشوت خور یا ایسا شخص جس کی کمائی حرام ہو دعوت دے اور اس کی غالب کمائی حرام ہو تو نہ اس کی دعوت کھائی جاسکتی ہے اور نہ اس کا تحفہ قبول کیا جاسکتا ہے اورا گر اس کی غالب کمائی حلال ہو تو اس کے قبول کرنے اور کھانے میں شرعاً رخصت دی گئی ہے ’’ آکل الربا و کاسب الحرام أھدی الیہ أو اضافہ و غالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ اواستقرضہ و ان کان غالب مالہ حلالا لا باس بقبول ھدیتہ و الاکل منھا کذا فی الملتقط ۔ عالمگیری ج ۵ کتاب الکراھۃ باب الھدایا والضیافات ص : ۳۴۳۔
فاسق عالم کی امامت
سوال : امام کی عدم موجودگی میں دو اشخاص نماز پڑھاتے ہیں، ایک سند یافتہ عالم ہیں، لیکن ان کی داڑھی مسنون مقدار سے کم ہے، اور ایک شحص غیر عالم ہے لیکن ضروری مسائل نماز سے واقف ہے، اور ان کی داڑھی مسنون طریقہ پر ہے۔ ایسی صورت میں امام کی عدم موجودگی میں دونوں متذکرہ اشخاص میں سے کس کو امامت کا استحقاق حاصل ہے، جبکہ دونوں مجود ہیں ؟
جواب : نماز کی صحت و فساد سے واقف شخص جس میں یکمشت داڑھی رکھنے کی وجہ بظاہر فسق نہیں ہے، وہی امامت کا مستحق ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص ۸۳ میں ہے : الأولیٰ بالامامۃ أعلمھم بأحکام الصلوۃ… ھذا اِذا علم من القراء ۃ ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ھکذا فی التبیین ولم یطعن فی دینہ ۔ کذا فی الکفایۃ ، ھکذا فی النھایۃ و یجتنب الفواحش الظاھرۃ واِن کان غیرہ أورع منہ ۔
فقط واﷲ أعلم