رسولِ امین کی امانت و دیانت

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺکی شانِ ارفع یہ ہے کہ رب ذوالجلال نے آپ کے امین ہونے کی گواہی دی۔ آپ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھایا جو آسمان و زمین اور پہاڑ بھی نہ اُٹھا سکے۔ پس آپ ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حقوق ادا کر دکھائے اور آپ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی کہ وہ مؤمن فلاح پا گئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا جس میں امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لیکر واپس آئے اور فرمایا کہ کچھ سونا آیا تھا سب تقسیم ہوگیا یہ ایک سونے کی ڈلی بچ گئی تھی میں جلدی اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔ حفاظت امانت میں نبی کریم ﷺ کا یہ حال تھا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح ہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دن سے فاقہ تھے، یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کرکے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کیلئے آگ پر چڑھا دیا جب آپؐ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپؐ سخت ناراض ہوگئے کہ مالِ غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تقسیم کیوں کیا گیا اور اسے آپؐ نے خیانت پر محمول فرمایا۔ آپؐ نے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کیلئے گوشت سے بھرے ہوئے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں اُلٹوا دیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم کئے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔ امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی ، دلی سچائی اورراست بازی ہے آپ ؐ میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھی اور اہلِ مکہ آپ کو صادق وامین کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے۔