’’رزق حلال کی برکت ‘‘

اسکول کے باہر چھٹی کے وقت آلو چھولے کی چاٹ والا کھڑا ہوتا تھا، اس کا نام شریف تھا، چھٹی کے بعد لڑکے اس کے ٹھیلے کے اِردگرد کھڑے ہوجاتے اور چاٹ کھاتے، میں بھی روزانہ وہاں سے چاٹ کھاتا تھا۔ عزیز میرا کلاس فیلو تھا، آج راستے میں اس نے مجھے بتایا : ’’میں چاٹ تو روزانہ کھاتا ہوں مگر پیسے کبھی کبھی دیتا ہوں‘‘۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا: ’’یار اسلم! بات دراصل یہ ہے کہ شریف کے ٹھیلے پر بہت رش ہوتا ہے، اسی دوران میں چاٹ کھالیتا ہوں، جب شریف پیسے مانگتا ہے تو دے دیتا ہوں۔
جب نہ مانگے تو مفت میں کھا لیتا ہوں۔ عزیز بولا: میں نے کہا: ’’یہ غلط ہے، اس نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم گھر کی طرف چل پڑے۔ دوسرے دن چھٹی کے بعد میں نے شریف کے ٹھیلے سے چھولے کھائے اور پیسے دیتے وقت مجھے عزیز کی بات یاد آگئی۔ میں نے دیکھا کہ شریف دوسرے لڑکوں کی طرف متوجہ ہے تو میں بغیر پیسے دیئے چلا گیا۔ اس طرح میرا پیٹ بھی بھر گیا اور پیسے بھی بچ گئے ۔ پورا ہفتہ میں اسی طرح چھولے کھاتا رہا۔ ایک دن اخبار پڑھتے ہوئے ایک اشتہار پر میری نظر پڑی، اس میں لکھا تھا۔ ’’حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی‘‘۔ میں سوچنے لگا کہ میرے ابو نے آج تک محنت مزدوری کرکے ہمیں رزق حلال کھلایا ہے، حرام کا ایک لقمہ میرے حلق سے نہیں اُترا۔ نہیں میں ایسا نہیں کرسکتا۔ دوسرے دن چھٹی کے بعد میں عزیز کے ساتھ شریف کے ٹھیلے پر گیا۔ چاٹ کھانے کے بعد میں نے انہیں پیسے دیئے مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان سے سچ بولتا، میرا ضمیر مجھے ملامت کررہا تھا۔ میں آگے بڑھا اور ان سے بولا ’’شریف انکل! میں آپ کے ٹھیلے سے روزانہ چاٹ کھاتا ہوں اور اکثر پیسے نہیں دیتا۔ مجھے آپ معاف کردیں اور یہ اپنے سب پیسے لے لیں۔ میں نے اپنے جمع کئے ہوئے سب پیسے نکال کر انہیں دے دیئے۔ ’’تمہارا بہت بہت شکریہ‘‘ شریف نے پیسے لے کر مجھے پیار کیا۔ میں خوشی خوشی گھر آگیا، اب میرے دل و دماغ کو اطمینان اور سکون مل گیا تھا، مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے میرے دل سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا۔