رحمن نے سکھایا ہے قرآن

رحمن نے (اپنے حبیب کو) سکھایا ہے قرآن۔ پیدا فرمایا ’’انسان کو، (نیز) اسے قرآن کا بیان سکھایا۔ (سورہ الرحمن۔۱تا۴)

اس سورۂ رحمن میں ان تمام روحانی اور جسمانی، دنیوی اور اخروی نعمتوں کا ذکر تفصیل سے ہو رہا ہے، جن سے جن و انس کو ابتدائے آفرینش سے سرفراز فرمایا گیا، سرفراز فرمایا جا رہا ہے، یا عالم آخرت میں سرفراز فرمایا جائے گا۔ اس لئے اس کی ابتداء ’’الرحمن‘‘ سے ہوئی، جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ازحد مہربان، بہت ہی رحمت فرمانے والا، جس کا دسترخوان جود و کرم اتنا کشادہ ہے کہ مؤمن و کافر، مطیع و عاصی، اپنے اور بیگانے کسی نہ کسی صورت میں مستفید ہو رہے ہیں اور جس کا دامن رحمت اتنا وسیع ہے کہ فقط یہ دنیائے فانی ہی نہیں، بلکہ از ازل تا ابد سب اس کے سایۂ عاطفت میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ’’الرحمن‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’الرحمن، یعنی اپنے بندوں پر ازحد لطف و عنایت فرمانے والا۔ اس کا پہلا احسان تو یہ ہے کہ پیدا فرمایا۔ دوسرا لطف یہ ہے کہ پیدا کرنے کے بعد وادی ضلالت میں آوارہ بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑ دیا، بلکہ حق کی طرف رہنمائی فرمائی اور اسباب سعادت سے بہرہ ور فرمایا۔ تیسری ذرہ نوازی یہ کرے گا کہ یوم حشر اُن کی مغفرت فرمائے گا اور غایت رحمت کا ظہور اس وقت ہوگا، جب عاشقان زار کو، محبان دلفگار کو، مشتاقان دیدار کو، شرف دیدار سے مشرف فرمائے گا۔
نیز کفار کے ایک سوال کا جواب بھی ہے۔ انھوں نے جب اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں ’’الرحمن‘‘ سنا تو کہنے لگے کہ ’’الرحمن‘‘ کون ہے؟ ہم تو اس کو نہیں جانتے۔ بتا دیا کہ ’’الرحمن‘‘ وہ ہے، جس کی شان رفیع تم اس سورہ مبارکہ میں سنو گے۔ اپنے بے شمار انعامات میں سے سب سے پہلے تعلیم قرآن کا ذکر کیا، کیونکہ یہی وہ آفتاب ہے کہ جب مطلع حیات پر طلوع ہوتا ہے تو زندگی کی شب دیجور، صبح سعادت سے آشنا ہوتی ہے۔ انسان جب اس کی ہدایات کو خضر راہ بناتا ہے تو شرف انسانی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی وہ صحیفہ رشد و ہدایت ہے کہ بھٹکے ہوئے انسان کا رشتہ اپنے خالق کریم سے جوڑ دیتا ہے۔
’’علم‘‘ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے، یعنی کس کو سکھایا اور کیا سکھایا۔ یہاں دوسرا مفعول تو ذکر کردیا کہ قرآن کی تعلیم دی، لیکن پہلا مفعول کہ کس کو تعلیم دی، مذکور نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مفعول اتنا عیاں ہے کہ عدم ذکر کے باوجود کسی کو اس کے بارے میں تردد نہیں ہو سکتا اور وہ ہے ذات پاک محمد مصطفے، حبیب کبریا علیہ اطیب التحیۃ واجمل الثناء۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواء علوم قرآنیہ سے جتنا کچھ حصہ کسی کو ملا ہے، سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اور حضور کے طفیل ملا ہے۔
ذرا غور فرمائیے! متعلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور معلم خود خالق ارض و سماء ہے۔ شاگرد مکہ کا امّی ہے اور استاد عالم الغیب والشہادۃ ہے اور پڑھایا کیا جا رہا ہے؟ قرآن پاک۔ کونسا قرآن؟ جو سراپا رحمت ہے، جو مجسم ہدایت ہے، جو نور علی نور ہے، جس کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے ’’ھذا بیان للناس وھدی موعظۃ للمتقین‘‘۔ جس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’خشک و تر کی کوئی ایسی چیز نہیں، جس کا ذکر اس کتاب مبین میں موجود نہ ہو‘‘۔ اس تعلیم سے جو بحر بے پیدا کنار اس صدر منشرح میں موجزن ہوا، اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس سے نعمت ایجاد کا ذکر ہو رہا ہے، یہاں انسان سے مراد نوع انسانی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ قول بھی منقول ہے کہ ’’الانسان‘‘ سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ (قرطبی)
الانسان سے مراد اگر نوع انسانی ہو اور ’’علمہ البیان‘‘ میں بھی اسی کو بیان کی تعلیم کا ذکر ہو تو بلاشبہ یہ بھی الرحمن کی شان رحمانیت کا روشن ظہور ہے۔ لیکن آپ خود بتائیں کہ ’’الانسان‘‘ سے مراد اگر وہ باعث تخلیق کائنات، فخر آدم و بنی آدم ہو، جسے خداوند کریم نے رحمۃ للعالمین کے دلنواز لقب سے مشرف فرمایا ہے اور ’’علمہ البیان‘‘ سے مراد بیان حقیقت اور اظہار اسرار کی وہ بے پناہ صلاحیت ہو، جو شان نبوت کا خاصہ ہے تو شانِ رحمانیت کی ضیاء باریوں کا کیا عالم ہوگا۔