رجنی کانت کاسیاست میںداخلہ

وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
رجنی کانت کاسیاست میںداخلہ
ٹاملناڈو میں بالآخر سوپر اسٹار رجنی کانت نے سیاست میں اپنے داخلہ کا اعلان کردیا ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار کیا جار ہا تھا اور خود رجنی کانت بھی یہ اشارے دے رہے تھے کہ وہ بہت جلد سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرینگے ۔ تاہم اس کی نوعیت اور تفصیلات کے تعلق سے صرف قیاس آرائیاں ہی جاری تھیں۔ کوئی بات قطعیت سے سامنے نہیں آئی تھی اور آج رجنی کانت نے اس کا اعلان کردیا ۔ رجنی کانت نے آج صبح اپنے حامیوںاور پرستاروں سے خطاب کیا اور کہا کہ ٹاملناڈو میں جو سیاسی ماحول ہے وہ انتہائی پراگندہ ہے اورا س نے صاف ذہنیت رکھنے والوںکوشرمسار کرکے رکھ دیا ہے ۔ رجنی کانت کا کہنا تھا کہ وہ ریاست کی صورتحال کے تعلق سے مسلسل غور و فکر میںمصروف تھے اور انہیںاب یہ محسوس ہونے لگاتھا کہ انہیںاپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ انہوںنے جو کچھ بھی آج کی تقریر میں کہا ہے وہ مکمل سیاسی اعتبار کی تقریر تھی اوریہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی تقریر سے کم نہیں تھی ۔ رجنی کانت نے جیسے ہی اپنی سیاسی جماعت کے قیام اور ریاست کی تمام 234 اسمبلی نشستوں سے مقابلہ کا اعلان کیا انہیںمبارکباد دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کا سوشیل میڈیا پر آغاز ہوگیا ۔ ٹوئیٹر پر رجنی کانت سب سے زیادہ گشت کر رہے تھے ۔ کئی گوشوں سے انہیں مبارکباد دی جا رہی تھی ۔ ریاست میں خود اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کا منصوبہ رکھنے والے ایک اور اداکار کمل ہاسن نے بھی رجنی کانت کو مبارکباد دی ہے ۔مختلف گوشوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ رجنی کانت کے داخلہ سے ریاست کی سیاست میں تبدیلی ضرور آسکتی ہے ۔ ریاست میںسیاسی نقشہ بدل سکتا ہے ۔ ریاست میں عملا صرف دو جماعتی نظام دکھائی دیتا ہے ۔ ایک آل انڈیا انا ڈی ایم کے اور دوسری ڈی ایم کے ۔ حالانکہ یہاں بی جے پی اور کانگریس بھی ہیں اور کچھ علاقائی جماعتیں بھی ہیں لیکن یہ جماعتیں اقتدار کی دعویداری کے قریب بھی نہیں پہونچ سکتیں۔ وقفہ وقفہ سے یہ جماعتیں اقتدار کی دعویدار جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے میںضرور کامیابی حاصل کرلیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان جماعتوں کا ریاست کی سیاست میں کوئی رول نہیں رہ گیا ہے ۔
رجنی کانت نے سیاست میںد اخلہ اور انتخابی میدان میں مقابلہ کااعلان ایسے وقت میں کیا ہے وہ سیاسی اعتبار سے نئی جماعت اور ایک انتہائی مقبول شخصیت کے متعارف کروائے جانے کیلئے سب سے بہترین وقت کہا جاسکتا ہے ۔سابق چیف منسٹر جئے للیتا کے فوت ہوجانے کی وجہ سے انا ڈی ایم کے میںاختلافات نے سرابھارنا شروع کردیا ہے ۔ڈی ایم کے میںکروناندھی کی علالت نے انہیںصرف نمود تک محدود کردیا ہے اور ایم کے اسٹالن بتدریج ذمہ داری سنبھال رہے ہیں لیکن انہیں بھی خود پارٹی اور خاندان میںمخالفتوں کا سامنا ہے ۔ ایسے میں اگر رجنی کانت سیاسی میدان میںقسمت آزمائی کرتے ہیں تو اس اندیشہ سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ بہت سے ایسے نالاںسیاسی قائدین ہوسکتے ہیں جو اپنی سیاسی قسمت کو رجنی کانت کی مقبولیت کے ذریعہ چمکانے کی کوشش کرنے آگے آسکتے ہیں۔ رجنی کانت کو ٹاملناڈو میںبے انتہا مقبولیت حاصل ہے ۔ اس عمر میںبھی ان کے پرستاروں کی تعداد دوسری جماعتوں کو سیاسی جھٹکا دینے کیلئے کافی سمجھی جاسکتی ہے ۔ رجنی کانت نے اپنی تقریر میں جوباتیں کہی ہیںان سے یقینی طور پر شفاف سیاست میں یقین رکھنے والے انہیںموقع دینے کے تعلق سے سوچ سکتے ہیں ۔ رجنی کانت نے اپنے پرستاروں سے کہا کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخابات تک خاموشی اختیار کریں اورکسی بھی سیاسی جماعت کے تعلق سے برا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے ۔ ان کا یہ اعلان بھی سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اس سے اخلاقیات کی سیاست کو فروغ دینے کے اشارے بھی مل سکتے ہیں ۔
رجنی کانت کا یہ اعلان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان کی پارٹی انتخابات میں کامیابی ملتی ہے اور وہ اقتدار پر فائز ہوجاتی ہے تو اندرون تین سال اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا کریگی اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ تین سال میں مستعفی ہوجائیگی ۔ رجنی کانت نے ایسا لگتا ہے کہ پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے ۔ ان کے سامنے دہلی کے اروند کجریوال کی مثال موجود ہے ۔ انہوں نے ہر فیصلہ میںعوام کو شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انتخابات میں ایسی کامیابی حاصل کی تھی جس کی مثال ملک کی کوئی اور سیاسی جماعت پیش نہیں کرسکتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رجنی کانت کی سیاسی جماعت کو ٹاملناڈو کے عوام کی کتنی حمایت ملتی ہے اور وہ کس حد تک ان پر اثرا نداز ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ تاہم ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ رجنی کانت کی سیاسی جماعت سے ٹاملناڈو کی سیاسی صورتحال اور مساوات میں تبدیلی ضرور آسکتی ہے ۔
گجرات حکومت کیلئے پریشانی
گجرات میں گذشتہ ہفتے حلف لینے والی روپانی حکومت کیلئے ابتدائی ایام ہی میں پریشانیوں کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نتن پٹیل نے اہم قلمدانوں سے محروم کئے جانے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ۔ حالانکہ پارٹی صدر امیت شاہ کی مداخلت سے انہوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں لیکن ان کا یہ کہنا اہمیت کا حامل ہے کہ امیت شاہ نے ان کے مطالبات کا جائزہ لینے کا تیقن دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں اگر ان کے قلمدان بحال نہیں کئے گئے تو ان کی جانب سے ایک بارپھر ناراضگی کا اظہار کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح سے نتن پٹیل کو پٹیل برادری کی تائید حاصل ہوئی تھی اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ وہ مستقبل میں کسی وقت روپانی حکومت کے خلاف ایک بار پھر بغاوت کرسکتے ہیں۔ روپانی کے پاس یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ چند ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے پارٹی میں پھوٹ ڈال سکتے ہیں اور کانگریس پارٹی انہیں تائید فراہم کرسکتی ہے ۔ کانگریس کے ایک رکن اسمبلی نے تو انہیں ابھی بھی یہ پیشکش کردی تھی کہ وہ دس ارکان اسمبلی کے ساتھ بغاوت کردیں اور کانگریس کی تائید سے ریاست میں نئی حکومت تشکیل دیں۔ حالانکہ نتن پٹیل سے اس قدر شدت کی بغاوت کی امید نہیں کی جاسکتی لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اقتدار کیلئے کبھی بھی کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اور جب 80 ارکان اسمبلی والی جماعت سے تائید ملنے کے اشارے ملنے شروع ہوگئے ہیں تو وہ حصول اقتدار کیلئے ایسا کربھی سکتے ہیں۔ روپانی حکومت کیلئے فی الحال تو پریشانی ٹل گئی ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں مستقبل میں ایسی پریشانی کا دوبارہ سامنا کرنا پڑسکتا ہے اگر نتن پٹیل کے مطلوبہ قلمدان انہیں دوبارہ الاٹ نہیں کئے جاتے ۔