راہول گاندھی کی آمدنی اسکیم

دیکھ زنداں کے پرے جوش جنوں رقص بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
راہول گاندھی کی آمدنی اسکیم
انتخابات کے موسم میں سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے مسلسل وعدے کئے جاتے ہیں۔ رائے دہندوں کو نت نئے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ انتخابات کے موسم کی روایت ہے ۔ ہندوستان میں تو خاص طور پر یہ سلسلہ کئی دہوں سے چل رہا ہے ۔ انتخابات کا موسم آتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں سرگرم ہوجاتی ہیں۔ عوام کو رجھانے کیلئے ان سے کئی وعدے کئے جاتے ہیں۔ ان کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا جاتا ہے اور پھر عوام سے کئے گئے وعدوں کو یکسر فراموش کردیا جاتا ہے ۔ یہی حال 2014 کے عام انتخابات کے وقت بھی ہوا ۔ نریندر مودی نے ملک بھر کے چکر لگاتے ہوئے عوام سے پرکشش وعدے کئے ۔ ان سے کہا کہ اچھے دن آئیں گے ۔ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دی جائیں گی ۔ بیرونی ممالک میں رکھا کالا دھن واپس لایا جائیگا اور ہر شہری کے اکاونٹ میں 15 تا 20 لاکھ روپئے مفت میں جمع کروادئے جائیں گے ۔ عوام نے ان وعدوں پر بھروسہ کیا اور مودی کے حق میں ووٹ دیا ۔ مودی نے اقتدار سنبھال لیا اور تمام ہی وعدے فراموش کردئے گئے ۔ جب 15 تا20 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ یاد دلایا گیا تو یہ کہہ دیا گیا کہ یہ ایک جملہ تھا ۔ ایسے لاکھوں روپئے کسی کے اکاونٹ میں نہیں جمع کروائے جاتے ۔ جب یہ کہا گیا کہ دو کروڑ نوکریاں کہاں ہیں تو پکوڑے تلنے اور پان شاپس لگانے یا پھر گائے پالنے کا مشورہ دے کر ٹال دیا گیا ۔ جب اچھے دن کی بات کہی گئی تو خود بی جے پی کے قائدین دامن بچانے لگے اور نظریں چرانے لگے ۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ یہ بی جے پی کے وعدوں کی حقیقت تھی ۔ جب کسانوں کے قرض معاف کرنے کی بات آئی تو اس سے انکار کردیا گیا لیکن کارپوریٹ برادری کے 3.5 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض معاف کردئے گئے ۔ ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض نادہندگان کو ملک سے فرار ہونے کے مواقع فراہم کردئے گئے اور ان کے خلاف پوری سنجیدگی یا دیانت کے ساتھ کوئی کارروائی تک نہیں کی گئی ہے ۔
اس کے برخلاف کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے وقت اعلان کیا تھا کہ اگر ان ریاستوں میں ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو کسانوں کے قرض اندرون 10 دن معاف کردئے جائیں گے ۔ تین ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا اور کانگریس نے دس دن سے بھی کم وقت میں کسانوں کے قرضہ جات معاف کردئے ۔ یہ وعدوں پر عمل آوری کی مثال تھی ۔ اس طرح اب راہول گاندھی نے ایک اور اسکیم کا اعلان کیا ہے کہ اگر مرکز میں ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو ملک کے غریب خاندانوں کو سالانہ 72000 روپئے اقل ترین آمدنی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ اب بی جے پی قائدین اور حلقوں میں اس اعلان پر ہلچل پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ لوگ عوام پر اس کے اثر سے اندیشوں کا شکار ہونے لگے ہیں اور فوری کہا جا رہا ہے کہ یہ اسکیم قابل عمل نہیں ہے ۔ اتنے وسائل حکومت کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود مقصود ہونی چاہئے ۔ جب ہزاروں کروڑ روپئے دھوکہ باز لے کر ملک سے فرار ہوسکتے ہیں۔ لاکھوں کروڑ روپئے اگر کارپوریٹ برادری کے معاف کئے جاسکتے ہیں تو سالانہ 72000 روپئے ملک کے غریب خاندانوں کو کیوں فراہم نہیں کئے جاسکتے ؟ ۔ یقینی طور پر اس اسکیم کے خد و خال ابھی سامنے آنے ہیں اور ان کو دیکھ کر تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو سرے سے نا قابل عمل قرار دینا سیاسی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہی ہے ۔
ہندوستان میں دولت کی کمی نہیں ہے ۔ یہاں وسائل بھی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسائل کا بہتر اور جامع استعمال کیا جائے ۔ محض چند گنتی کے کارپوریٹس کے خزانہ بھرنے کی بجائے غریبوں کے گھر میں روشنی اور انہیں دو وقت کی روٹی فراہم کرنے پر توجہ دی جائے تو اس اسکیم پر عمل آوری ناممکن نہیں ہے ۔ جس طرح سے حالیہ عرصہ میں کانگریس نے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس اسکیم کے تعلق سے ابھی سے اندیشوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ بی جے پی کواس اسکیم سے پریشانی فطری بات ہے اور وہ اس پر یقینی طور پر ملک کے عوام اور رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریگی لیکن عوام کو گمراہ نہیں ہونا چاہئے ۔