رام کا سہارا

ماضی کے وعدے آپ جو پورے نہ کرسکے
پھر وقت آگیا تو خدا یاد آگیا
رام کا سہارا
ہندوستانی عوام کو نفرت کے سایہ میں زندگی گزارنے کے لیے مجبور کرنے والے سیاسی ٹولوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ پھر سے چھیڑ دیا ہے ۔ مرکز میں اقتدار کے حصول کے بعد عوام کے توقعات پر پورا اترنے میں ناکام مودی حکومت کو آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے کوئی ترقیاتی موضوع نہیں تھا ۔ رام مندر ہی ایسا واحد موضوع ہے جس کے سہارے وہ آج تک اپنے سیاسی عزائم کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہورہی ہے ۔ اس ملک کے عوام کی اکثریت کو مذہبی جذبات سے بھڑکا کر نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرنے والے قائدین ایودھیا میں جمع ہو کر 1992 کے ماحول کی طرح نیا محاذ بنا رہے ہیں ۔ 1990 سے رام مندر کی تحریک کو وقتا فوقتا زندہ کرنے والے وشوا ہندوپریشد گذشتہ چند سال سے خاموش رہنے کے بعد اچانک عام انتخابات سے قبل اپنے وجود کا احساس دلا کر ہندوستانی عوام کی اکثریت کو تاریکی دور کی جانب سے ڈھکیل رہا ہے ۔ آج کی ترقی یافتہ زندگی اور ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں لوگوں کو پھر سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہوئے وی ایچ پی یہ فراموش کرچکی ہے کہ آج کا ہندوستان اور اس کا شہری ہر نفع و نقصان کو جاننے لگا ہے لیکن بعض سخت گیر عناصر ایسے بھی ہیں جو اپنے مفادات کے لیے باشعور ذہنوں کو بھی منتشر کر کے ان کی صلاحیتوں کو مفقود کرتے ہوئے ایودھیا مسئلہ میں ہی محصور کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ شیوسینا بھی اپنی گرتی ساکھ کو بچانے میں لگی ہوئی ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کے لیے حکومت پر زور دیا جارہا ہے ۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں آرڈیننس لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کہیں گے وہی ہوگا اور عوام بھی ان کی باتوں پر عمل کریں گے ۔ کیوں کہ عوام کو کامن سنس ہی نہیں ۔ اس لیے ان کو آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ملک کی موجودہ صورتحال سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے رام مندر ہی موزوں ترین موضوع ہے ۔ اس ماحول میں ہندوستانی مسلمانوں کا جو احساس ہے وہ حوصلہ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے کیوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ماضی کے تجربات نے اس قدر باشعور بنایا ہے کہ وہ ملک میں چلائی جارہی نفرت کی مہم کی زد میں آنے سے بچتے رہنے کی کوشش ضرور کریں گے ۔ ہونا بھی یہی چاہئے کیوں کہ مسلمانوں کو صرف اپنے حوصلے کو تھام کر ہی مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے ۔ انہیں اپنے مستقبل کی فکر سے دور نہیں ہونا چاہئے ۔ تعلیم ، معاش اور معاشرتی زندگی کو حکومت کے شریر اور مکار افراد کی چالاکیوں کا شکار ہونے سے بچاتے ہوئے ثابت قدم رہنا چاہئے ۔ ان کے سامنے غور طلب امر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہندوستانی معاشرہ کے درمیان ناخواندہ نفرت پسند قائدین اور گروپس بھی موجود ہیں جو اپنے ہی طبقہ کے لوگوں کو ایک خاص ذاتی مفادات کی خاطر تاریکی میں ہی رکھ کر ترقی سے محروم کرتے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کو ماضی میں بھی ترقی کے لیے از خود جدوجہد کرنی پڑتی تھی اب بھی یہی کچھ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کو اپنے بل پر ہی معاشی ، تعلیمی اور معاشرتی ترقی کی جانب کوشش کرنی ہے لہذا ملک کے نفرت انگیز ماحول کو صرف ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جائے جو ان ذاتی مفاد حاصلہ مذہبی ٹھیکیداروں کی باتوں میں گمراہی کا شکار ہو کر اپنا اور اپنے مستقبل کا خسارہ کررہے ہیں ۔ ساری دنیا کی ترقی کی شرح کو مد نظر رکھ کر بھی ہندوستان کی اس اکثریت آبادی کو محض مذہب کے نام پر پسماندہ ، ناخواندہ اور ذہنی پستی کی کھائی ہی میں ڈھکیل دیا جارہا ہے تو یہ لوگ اپنے ہاتھوں ہی خود کا خسارہ کررہے ہیں ۔ ماضی میں جو سیاستداں عوام کو ورغلا کر رام مندر کی تعمیر کے خواب دکھاتے ہوئے اقتدار تک پہونچے تھے اب وہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ رام مندر کی تعمیر کے وعدے اور وعید کر کے یہ لوگ تھک چکے ہیں ان کی جگہ نئے لوگوں نے لی ہے تو یہ لوگ قانونی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے اپنے عوام کی اچھی خاصی سوچ کو مفلوج کررہے ہیں ۔ جس دن یہ صاحب سمجھ ہندوستانی بیدار ہوں گے تو اس ملک میں مذہب کے ٹھیکیداروں کے لیے کوئی مقام نہیں ہوگا ۔۔