رافیل کیس ‘ دستاویزات کا سرقہ

جب سارقین مال و متاع لوٹ لے گئے
غفلت کی نیند سوتے رہے ہیں مزے سے ہم
رافیل کیس ‘ دستاویزات کا سرقہ
رافیل معاملت ایسا لگتا ہے کہ مسلسل عوامی مباحث میں رہے گی کیونکہ اب حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ اس کیس سے متعلق دستاویزات کا وزارت دفاع سے سرقہ کرلیا گیا ہے ۔ وزارت دفاع انتہائی اہمیت کی حامل اور حساس ہوتی ہے اور یہاں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کام کیا جانا چاہئے ۔ اب تک کیا بھی جاتا رہا ہے لیکن اب اچانک ہی رافیل معاملت کے کیس سے متعلق دستاویزات کا غائب ہوجانا کئی شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث ہے اور پہلے سے جو شکوک پائے جاتے ہیں انہیں مزید تقویت بھی ملتی ہے ۔ رافیل معاملت ابتداء ہی سے شکوک و شبہات میں گھری رہی ہے ۔ حکومت نے اس معاملہ میں جس طرح سے قیمت میں اضافہ سے اتفاق کیا۔ فرانس سے حاصل کئے جانے والے طیاروں کی تعداد میں کمی آئی اور ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کی بجائے انیل امبانی کو اس کنٹراکٹ کا حصہ بنایا ۔ جس طرح سے فرانس کے سابق صدرفرینکوئی اولاند نے اس معاملہ میں تبصرہ کیا کہ حکومت ہند نے انیل امبانی ہی کو اس کا آف شور کنٹراکٹ دینے پر ا صرار کیا تھا ۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اس مسئلہ پر جس طرح سے حکومت کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے اور حکومت اس کی تفصیلات منظر عام پر لانے سے مسلسل انکار کر رہی ہے اور وہ کوئی بھی تفصیل پارلیمنٹ میں تک بھی پیش کرنے سے گریزاں ہے اس سے یہ شکوک و شبہات تقویت پاتے ہیں کہ اس معاملہ میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے اور حکومت اسی کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اگر اس معاملہ میں حکومت کے دعووں کے مطابق کچھ بھی غلط نہیں کیا گیا ہے تو پھر حکومت کوا س کی پردہ پوشی پر اصرار نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ جہاں تک معاملت کی تفصیلات اور طیاروں کی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے اس سے کوئی ایسا راز فاش نہیں ہوسکتا جس سے قومی سلامتی جڑی ہو۔ حکومت صرف اپنی غلط کاریوں کی پردہ پوشی کرنے ایسا بہانہ پیش کر رہی ہے ۔ حکومت یہ وضاحت کرنے کے موقف میں ہرگز نہیں کہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ پر انیل امبانی کی چند دن قبل ہی قائم ہوئی کمپنی کو کیوں ترجیح دی گئی اور کنٹراکٹ دلایا گیا ۔
اب جبکہ ایک معروف انگریزی اخبار نے اس معاملت کا مسلسل پردہ فاش کرتے ہوئے اس کی تفصیلات کو عوام میں لانے کی مہم شروع کی اور کچھ اطلاعات کو منظر عام پر لانے میں کامیابی بھی حاصل کی تو حکومت نے اس کیس سے متعلق دستاویزات ہی کے غائب ہوجانے کا دعوی کردیا ۔ اب اس اخبار اور اس کے مالکین کو نشانہ بنانے کے اشارے دئے جا رہے ہیں۔ مقدمات کے اندراج کے نام پر دھمکانے یا پھر خوفزدہ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اخبار مذکور نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اخبار میں جو کچھ بھی انکشافات ہوئے ہیں وہ انہیں دستاویزات کے سرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں حکومت نے خود یہ واضح کیا ہے کہ دستاویزات کا سر قہ ہوا ہے اور وہ بھی وزارت دفاع سے ہوا ہے ۔ اگر واقعی سرقہ ہوا بھی ہے تو اس کی بھی ذمہ داری راست طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے اور حکومت وزارت دفاع میں اہم ترین اور حساس دستاویزات کی حفاظت میں بھی ناکام قرار پاتی ہے ۔ یہ حکومت کی جانب سے خود اپنی ناکامی کا اعتراف ہے لیکن حکومت اس ساری صورتحال میں بھی حقائق کو قبول کرنے اور منظر عام پر آنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے اور وہ اس معاملت اور مبینہ غلط کاریوںکو منظر عام پر لانے کی کوشش کرنے والوں ہی کو نشانہ بنانے کے اشارے دے رہی ہے ۔ حکومت میڈیا کو بھی بخشنے کو تیار نہیں ہے ۔
ہندوستان میں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں حکومتیں جوابدہ ہوتی ہیں۔ ملک کے عوام کے سامنے حکومت کو جواب دینا ہوتا ہے اور اپوزیشن کو بھی حکومت سے سوال کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ حکومت کے کام کاج کی جو تفصیلات ہوتی ہیں حکومتیں انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے ۔ جو باتیں اور تفصیلات عوام میں پیش نہیں کی جاسکتیں انہیں پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن حکومت نہ صرف ان تمام ذمہ داریوں اور فرائض سے فرار حاصل کر رہی ہے بلکہ حقائق کو اپنے طور پر منظر عام پر لانے کی کوشش کرنے والوں کو ہی نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ حکومت کو جمہوری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔