راحیل شریف نے ملک چھوڑنے میں میری مددنہیں کی ۔ مشرف

اسلام آباد: ایک ہفتہ قبل پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف(ریٹائرڈ) نے پیر کے روز یہ بات کہہ کر سرخیوں میں آگئے تھے جب ایک انٹر ویو کے دوران انہوں کہاتھا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کسی قسم ’’ درخواست ‘‘ درخواست ملک سے باہر جانے میں مدد کی نہیں کی تھی عدلیہ کی جانب سے حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا تھا ۔

مشرف نے چیانل92سے کہاکہ ’’ کسی نے مجھ سے ربط نہیں کیا اور نہ میں نے کسی سے۔ راحیل شریف نے بھی مجھ سے کوئی بات نہیں کی اورنہ ہی میں نے کوئی گذار ش ان سے کی‘‘

۔انہوں نے مزید کہاکہ میرے بیان کو دنیانیوز نے توڑ مروڑ کر پی پیش کرتے ہوئے قیاس آرائیاں کی ہیں۔مشرف پچھلے ہفتہ دنیا نیوز پر ہوئے انٹریو کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہاکہ تھا’’ انہوں (راحیل شریف) نے میری مدد کی اور میں واضح اور شکر گذار ہوں۔میں سابق میں ان کا باس اور ان سے قبل میں آرمی چیف رہ چکا ہوں۔انہوں نے میری مدد کی ‘ کیونکہ مقدمات کو سیاسی رنگ دیاجارہا تھا‘ وہ مجھ پر ای سی ایل نافذ کرنا چاہار ہے تھے۔۔

اور اس کو ایک سیاسی مسئلہ بنانا چاہتے رہے تھے۔مقامی سیاست پر فوج کے اثر کے متعلق پوچھے گئے سوال میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کے تمام ادارے متحدطور پر کام کرتے ہیں۔ میں نے چالیس سالوں تک فوج میں خدمات انجام دئے ہیں۔سابق صدر نے کہاکہ فوج اور میرے درمیان میں یکجہتی واضح ہے اور آگے بھی رہے گی‘‘اور وہ دنیا نیوز پر دئے ہوئے اپنے انٹرویو پر قائم ہیں۔

مشرف کی واپسی کے متعلق منسٹر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ‘ انہوں نے کہاکہ مجھے اس ٹائم لائن کے بارے میں معلومات نہیں ہے جس میں چار سے چھ ہفتوں میں کی مہلت دی گئی تھی۔مشرف نے کہاکہ’’ عدالت کے فیصلے میں ایسے کوئی مہلت نہیں تھی‘‘۔ریٹائرڈ آرمی چیف کی جانب سے مشرف کو کی جانے والی مددکے متعلق وضاحت پر مشرف نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ عدالت پر انداز ‘‘ہوئے۔مشرف جاریہ سال میں مارچ کے اوائل می پاکستان چھوڑ کر دوبئی چلے گئے تھے جس کے کچھ گھنٹوں بعد وزارت داخلہ نے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کا نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ( ای سی ایل) سے نکا ل دیا تھا۔

حکومت کے اعلامیہ سپریم کورٹ کی پیروی میں جاری کیا گیا جس میں ان کے بیرونی دوروں پر عائد امتناع کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے گئے۔لیکن اعلی عدالت کے احکامات اس کے ساتھ سامنے آئے کہ وفاقی حکومت یا تین ججوں کی خصوصی عدالت نے موظف جنرل غداری کے مقدمہ کی سنوائی کے دوران اپنی حراست یا محدود نقل وحرکت کے لئے آزاد تھے۔بے نظیر بھٹو‘ اکبر بوگتی‘ غازی عبدالرشید کے قتل کے علاوہ ریٹائرڈجنرل کو نومبر2007میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم میں غداری کے الزامات کا بھی سامنا تھا۔ای سی ایل میں ان نام 20ماہ تک شامل رہا۔

وزیر داخلہ نثار علی خان نے کہاکہ تھاکہ مارچ میں مشرف تمام الزامات کا عدالت میں سامنا کریں گے اور انہوں نے ’’ وعدہ کیا ہے کہ وہ چار سے چھ ماہ میں واپس اجائیں گے‘‘۔
IANS