راجیہ سبھا انتخاب

توگ رچہ بدگماں نہیں، خوش گماں سہی
کرتا ہے باربار تو کس بے یقیں کا ذکر
راجیہ سبھا انتخاب
گجرات کی ایک راجیہ سبھانشست کیلئے انتخاب کا عمل زیر دوران ہے ۔ اس کیلئے مرکز میں برسر اقتدار اتحاد اور اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے ۔ ماضی میں شائد ہی اس طرح کی کوئی مثال مل سکے جب ایک راجیہ سبھا نشست کیلئے سارے جمہوری نظام کے پرخچے اڑانے سے بھی گریز نہ کیا گیا ہو۔ حکومت کے کام کاج میں ایوان بالا کی ایک نشست ویسے بھی کوئی زیادہ اہمیت نہیںرکھتی ۔ جہاں تک لوک سبھا کا سوال ہے ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ اس کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو لیکن اس کیلئے بھی اتنی تگ و دو نہیں کی جاتی اور نہ ہی کوئی بھی پارٹی خود کے امیج کو داو پر لگاتی ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی راجیہ سبھا نشست کیلئے سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کرتا ہے ‘ قوانین کے نام پر غیر قانونی کام کئے جاتے ہیں ‘ حکومت کے ذمہ داران غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور اپوزیشن کی صفوں میں پھیلے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اور بھی ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایک نشست کیلئے کیا کچھ کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں یہ انتخاب ہونے جا رہا ہے جہاںسے کانگریس نے پارٹی صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو امیدوار نامزد کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ساری مرکزی حکومت اور پوری بی جے پی ایک احمد پٹیل کو شکست دینے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات میں کانگریس کے ارکان اسمبلی کو خریدنے تک کی کوششیں کی گئیں۔ انہیں دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا اور جب اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور کانگریس نے اپنے ارکان اسمبلی کو کرناٹک منتقل کردیا تواور وہاں کے ریاستی وزیر ان ارکان اسمبلی کی میزبانی کی ذمہ داریاں نبھار ہے ہیں تو اب اسی وزیر کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ ان کے خلاف دھاوے کئے گئے ہیں اور غیر محسوب اثاثہ جات کی ضبطی کا ادعا کیا جا رہا ہے ۔ یہ کارروائی راتوں رات شروع ہوئی ہے جس سے اس پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ویسے تو اس طرح کے معاملات میں تفصیلی تحقیقات اور جانچ پڑتال کے بعد کوئی کارروائی کی جاتی ہے اور اگر کرناٹک کے وزیر کے خلاف بھی ایسا ہی کچھ تھا تو یہ کارروائی بہت پہلے ہونی چاہئے تھی ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ گجرات میںراجیہ سبھا کا انتخاب ہونے جا رہا ہے اور کرناٹک کے وزیر کانگریس کے ارکان اسمبلی کی میزبانی کر رہے ہیں تب ان کے خلاف دھاوے کرنے سے حکومت کی نیت پر شک کا پیدا ہونا واجبی امر ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اپنے عزائم اور مقاصد کی تکمیل کیلئے سرکاری ایجنسیوں کا کس بے دریغ انداز میں اور مکمل جانبداری سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت محض ایک نشست کیلئے یا محض ایک شخصیت کو نیچا دکھانے کیلئے جمہوری اصولوں کو بھی داغدار کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ احمد پٹیل کے سیاسی اثر و رسوخ سے خود نریندر مودی اور ساری بی جے پی اور خاص طور پر بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی واقف ہیں۔ احمد پٹیل یو پی اے اقتدار کے دس برس کے عرصہ میں حکومت کا حصہ نہ رہتے ہوئے بھی کامل اختیارات کے حامل رہے ہیں۔ حکومت کے اہم فیصلوں میں ان کا عمل دخل رہا ہے ۔ وزرا کے انتخاب اور ارکان پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں تک میں احمد پٹیل کا رول قابل لحاظ رہا ہے ۔ احمد پٹیل نے یو پی اے اقتدار میں اپوزیشن کو نیچا دکھانے کی حکمت عملی کی تیاری میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ اس کے علاوہ اب گجرات میںاسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی اور خاص طور پر نریندرمودی اور امیت شاہ ان کے حلقہ اثر کو کم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں راجیہ سبھا میںداخلہ سے روکنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا فائدہ انہیںریاست کے اسمبلی انتخابات میںمل سکے ۔ یہ ذاتی بغض و عناد کی تکمیل کے سوا کچھ نہیںہے ۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب گجرات کے فسادات کے بعد مقدمات درج ہوئے تھے اس وقت امیت شاہ کے خلاف مقدمات کے اندراج میں بھی احمد پٹیل کا اہم رول رہا تھا اور امیت شاہ اسی بات کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ حکومتوں کی سرپرستی کی وجہ سے امیت شاہ مقدمات سے باہر نکل آئے ہیں لیکن وہ احمد پٹیل کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ان سے سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ احمد پٹیل اگر راجیہ سبھا پہونچ جاتے ہیں اور ان کے سیاسی اثر و رسوخ کو کم نہیں کیا جاتا تو گجرات میں خاص طور پر بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی انتقام اور ذاتی بعض و عناد کی وجہ سے محض ایک راجیہ سبھا نشست کے انتخاب کو وقار کا مسئلہ بنالیا گیا ہے اور جمہوری اصولوں اور اقدار پر مبنی سیاست کو داو پر لگا دیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی مذموم اور قابل مذمت رویہ ہے اور اس کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔