راجیہ سبھا انتخابات کے نتائج

کیوں آگ لگاتے پھرتے ہو
جب گرم ہوا سے ڈرتے ہو
راجیہ سبھا انتخابات کے نتائج
راجیہ سبھا کے حالیہ انتخابات میں حکمراں پارٹی بی جے پی کو 69 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا میں سب سے بڑی پارٹی کا موقف حاصل ہوجانا این ڈی اے کے لئے کوئی خاص کامیابی نہیں ہے۔ کانگریس کو چار نشستوں کا نقصان ہوا، وہ 54 کے بجائے اب 50 ارکان کے ساتھ ایوان میںموجود ہے۔ بی جے پی کو ایوان میں سادہ اکثریت 126 کے نشانہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ البتہ بی جے پی نے راجیہ سبھا میں اپنی طاقت میں اضافہ کرلیا ہے۔ اس کو 54نشستیں حاصل تھیں اب حالیہ انتخابات کے بعد وہ 69نشستوں کی حامل پارٹی بن گئی ہے۔ 58 سبکدوش ہونے والے پارلیمنٹیرینس کی جگہ پر تقرر کیلئے 15مارچ کو نامزدگیوں کی آخری تاریخ تھی جس کے بعد بی جے پی کے 16ارکان پارلیمنٹ کو بھی ان 33 ارکان راجیہ سبھا میں شامل ہیں جنہیں بلامقابلہ منتخب قرار دیا گیا تھا۔ اتر پردیش سے بی جے پی نے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جہاںسماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے حالیہ اتحاد سے بی جے پی کو دو لوک سبھا حلقوں گورکھپور اور پھولپور میں ناکامی ہوئی تھی۔راجیہ سبھا کے ان نتائج نے پارٹیوں کے اندر کراس ووٹنگ کی لعنت کو واضح کردیا ہے ۔ کرناٹک میں انتخابی نتائج سے صاف ظاہرہوا کہ بی جے پی نے یو پی کے دو لوک سبھا حلقوں میں اپنی شکست کا انتقام لے لیا ہے۔اس نے بہوجن سماج پارٹی کے خلاف اپنی لڑائی میں بہر حال کامیاب ہونے کے لئے غیر اصولی طریقے بھی اختیار کرلیئے ۔ کرناٹک میں جنتا دل ایس کے باغیوں نے کانگریس میں شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے آنے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے لئے کام کرنے کا اشارہ دیا ۔ کراس ووٹنگ سے ہونے والی سیاسی ناکامی تلخ ہوتی ہے۔ اپنے ہی ارکان کی پارٹی امیدوار کے خلاف بغاوت سے حریف گروپ کو فائدہ پہنچایا جانا سیاسی اخلاق کا جنازہ نکال دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کراس ووٹنگ غیر کارکرد وٹوں اور دوسرے ترجیحی ووٹوں کے کھیل نے بی جے پی کو اپنی ناکامی سے باہر نکالنے میں مدددی ہے۔ اس لئے اتر پردیش میں10 کے منجملہ 9 پر اسے کامیابی ملی۔ یہ نتائج بی ایس پی اور ایس پی کے لئے شدید دھکہ ہیں۔ بی جے پی نے انتخابات میں اگر سبوتاج کا عملی مظاہرہ کیا ہے تو آگے چل کر اسے بھی ایسی ہی سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے اپنی پارٹی کے امیدوار کی ناکامی کیلئے بی جے پی کی چالاکیوں اور دھاندلیوں کو ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ ایک ووٹ کے ذریعہ اپنے امیدوار کو کامیاب بننے کی کوشش کرنے والی قومی پارٹی بی جے پی کو راجیہ سبھا میں متوقع قوت حاصل نہیں ہوسکی۔ بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کی ناکامی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے بی ایس پی کے مختار انصاری کو جیل سے ووٹ دینے کا اختیار نہیں دیا۔ وہ اس وقت بھنڈا جیل میں محروس ہیں۔ اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ہرون یادو کو فیروزآباد جیل سے ووٹ دینے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا۔ ان دو ارکان کے ووٹوں کی کمی سے بی جے پی کو بہت بڑا فائدہ ہوا ۔ الیکشن جیتنے کیلئے جب قومی پارٹیاں حقیر حرکتیں کرتے نظر آتی ہیں تو اس کا قومی سیاست پر منفی اثر پڑے گا۔ بہرحال بی جے پی کو ان سازشوں کے باوجود اترپردیش میں اگر بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہوتے ہیں تو یہ دونوں پارٹیاں اپنے اتحاد کے ساتھ آنے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو سبق سکھاسکتی ہیں۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے اس بات کا ادعاء کیا ہے کہ ان کی پارٹی راجیہ سبھا میں شکست کی وجہ سے سماج وادی پارٹی سے دوری اختیار نہیں کرے گی۔ یہ جذبہ قابلِ ستائش ہے ۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے یو پی میں ان دو پارٹیوں کا سیاسی اتحادوقت کا تقاضہ سمجھا جارہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کو راجیہ سبھا میں بی جے پی کی جانب سے چلی گئی چال کا جواب دینے کیلئے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کرنی ہوگی۔ قومی حکمراں پارٹی کو مستقبل کی سیاست میں مشکلات پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے حربوں کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ یو پی کی حکمراں پارٹی نے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا ہے تو اس کا جواب 2019 کے انتخابات میں رائے عامہ کے ہاتھ میں ہوگا۔