راجپوت راجہ اگر اتنے ہی بہادر تھے تو پھر مغلوں سے لگاتار شکست فاش کیوں ہوتے رہے؟

ہندوستانی تاریخ کا وسطی حصہ کا اگر مشاہدہ کیاجائے تو ہمیں اس بات کی جانکاری ملے گی کہ بحر ہند کے بیشتر حصوں پر راجپوتوں حکمرانوں کا قبضہ تھا۔راجپوتوں کی فوجی طاقت افغان مسلم لڑکوں سے تعداد میں زیادہ تھی۔پھر بھی جنگ میں وہ ہارتے تھے۔ افغانوں کے خلاف کوئی بھی بڑی جنگ جیتنا تو دورانکے سامنے زیادہ وقت تک ٹک بھی پانا راجپوتوں کیلئے نامکن تھا۔محمد غوری اور محمود غزنوی سے ہارنے کے بعد راجپوت کے جنگجو علاؤ الدین خلجی سے بھی ہار گئے اس کے بعد مغلوں نے بھی ہارایا۔دہلی سلطنت کے شروع کے سلطانوں نے راجپوتوں کو بری طرح دھول چٹائی اور انہیں مغربی ریگستان تک محدودکردیاپھر مغلون نے انہیں ان کی حد بتاتے ہوئے تکڑوں میں جاگیر دای دی کر اپنے سلطنت قائم کرلی ۔

اپنے ابا واجداد کی بدترین شکست کو چھپانے کے لئے زہریلی ذہنیت کے حامل لوگوں نے حقیقی تاریخ کو جھوٹ میں تبدیل کردیا ۔آج کی تاریخ میں پرتھوراج‘ سانگا اور مہارانہ پرتاب کو بڑا جابر اور جنگجو حکمران مانا جاتا ہے جبکہ حقیقت ٹھیک اس کے الٹ ہے۔ آمنے سامنے کی لڑائی میں انہوں نے نہ صرف شکست کا سامنا کیابلکہ وہ پوری طرح سے میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ہلدی گھاٹ کی جنگ کے دوران 1576میں اکبر کی فو ج کے سامنے مہارانہ پرتاب دو گھنٹے بھی ٹک نہیں پائے۔اب ہم آپ کو اس بات کا خلاصہ کرتے ہیں کہ راجپوت کے یودھا جنگ میں باربار ہراتے کیوں تھے۔

دراصل راجپوت تعداد میں تو زیادہ تھے لیکن تکنیک اور تجربے میں وہ اپنے دشمنوں ک سامنے صفر تھے۔ فوجیوں میں نسلی پرستی کوٹ کوٹ کر بھری تھی او رجنگ میں وہ پوری طرح متحد نہیں ہوپاتے تھے اس کے برخلاف افغان مسلمان لڑکوں میں فوج کی تعداد راجپوتوں کے مقابلے میں کم تھی لیکن وہ تکنیک میں کافی آگے تھے ‘ جنگ کے دوران الگ الگ کام کرنے والی جھانکیاں ہوتی تھی جن کی تعداد پانچ پر مشتمل تھی۔آگ اگلنے والے ہتھیار توپ دشمن کو نیست ونابود کردیتاتھا۔

باقی فوجیوں پر گھوڑی سوار تیر انداز حملہ بولتے اور پھرحکمت عملی کے مطابق پیچھے ہٹ جاتے۔ا س سے مقابلے والی فوج یہ سمجھتی کے دشمن کمزور پڑگیا ہے اور پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ بول دیتے۔لیکن گھوڑی پرسوار ان تیر اندازوں کے پیچھے ایک مرکزی اور آس پاس میں دو جھانکیاں تیار رہتی ۔مرکزی جھانکی طوری طاقت کے ساتھ حملہ کرنے والے فوج کو الجھاتی تو آس پاس کی دونوں جھانکیاں انہیں چارو ں طرف سے اپنے گھیرے میں لے کر ان پر حملہ بولتی۔آخر میں ایک محفوظ تکڑی بھی فوج میں شامل رہتی جس کا ضرورت پڑنے پر استعمال کیاجاتا اور ذمہ داریوں کی تقسیم فرد کی قابلیت کے مطابق کیاجاتاتھا۔راجپوتوں کے ہار کی ایک وجہہ جس کے باری میں مانا جاتا ہے کہ اس نے راجپوتوں کی شکست میں اہم رول نبھایا ہے وہ تھی افیون کی لت۔ ویسے تو راجپوتوں میں افیون کی عادت عام بات تھی‘ لیکن جنگ میں جاتے وقت اس کے استعمال کی تعداد بڑھادی جاتی ۔

اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتاتھا کہ انہیں مارنے یا مرنے سے علاوہ کچھ او ربات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس قدر جنگوں میں شکست کے بعد بھی راجپوتوں کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں ائی۔1576میں ہوئی ہلدی گھاٹ کی جنگ میں پوری شدت کیساتھ دھاوا بولنے والے مہارانہ پرتاب نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی جس کے چلتے راجپوت ماضی میں بھی کئی بار منھ کی کھانی پڑی تھی۔

حالانکہ ترائن اور کھانوا کے مقابلے میں ہلدی گھاٹ کی لڑائی چھوٹی تھی۔تاریخ کو ہندواور مسلمانوں سے بالاتر ہوکر دیکھیں۔تین ہزار فوجیوں پر مشتمل مہارانہ پرتاب کی فوج نے پانچ ہزار پر مشتمل مغلوں کی فوج سے بھڑی۔اکثر اس کو ہندو راجپوت کے مقابلے میں مسلم حکمران کی لڑائی کے طور پر پیش کیاجاتا ہے‘لیکن ایسا نہیں تھا۔رانا پرتاب کے ساتھ یقیناًگاندھاری بھی تھے تو اکبر سے پہلے مغربی ہندوستان پر راج کرچکے سوریہ ونش کے حاکم شاہ بھی تھے۔ ادھر مغل فوج کے سینا پتی راجپوت راجہ مان سنگھ تھے۔حالانکہ ہلدی گھاٹ میں شکست فاش ہونے کے بعد بھی رانا پرتاب نے لڑائی جاری رکھی۔

اس کو سراہا جاسکتا ہے مگر حقیقت میں ان کا مقام مغل فوج کے پاس ایک چھوٹے موٹے باغی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔ اب اگر پرتاب کو اکبر کے برابر سے اوپر رکھا جارہاہے تو یہ برصغیر کی فرقہ وارانہ سیاست کے بارے میں کافی کچھ بتاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب’’ڈسکاوری آف انڈیا‘‘ میں کافی حد تک شواہد کا صحیح استعمال کیاہے لیکن انہوں نے بھی من گھڑت کہانیوں کو زیادہ تر ترجیح دی ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال ملک محمد جایسی کی سونچ پر مشتمل کہانی کو تاریخ کی شکل دینا ہے۔اس کو بنیاد بناکر رانی پدمنی کے لئے چتوڑ کے راجہ او ردلی سلطنت کے حکمران علاؤالدین خلجی کے درمیان میں جنگ او رپدمنی کے بشمول 16000عورتوں کی عزت نفس کے لئے جان دینے کی من گھڑت کہانی بھی اس میں شامل ہے۔