رائے دہندوں کی سیکورٹی

حوصلہ ، ہوش و خرد سب تو ہوئے ہیں رخصت
پیچھے میں جاؤں گا آگے مرا سامان گیا
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کیلئے سیکورٹی کا مسئلہ سنگین ہے خاصکر نکسلائیٹس سے متاثرہ علاقوں میں رائے دہی کے لئے پولنگ بوتھس پہنچنے والے ووٹرس کو اپنے امیدوار کو منتخب کرنے کیلئے جان کو جوکھم میں ڈالنا پڑے تو یہ سیکورٹی انتظامات کے لئے ذمہ دار ایجنسیوں کیلئے لمحہ فکر ہے۔ چھتیس گڑھ میں شروع سے ہی یہ بات تشویش کا باعث تھی کہ رائے دہی کو ناکام بنانے کے لئے نکسلائیٹس کی جانب سے کوئی نہ کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اس اندیشہ کے پیش نظر ہی پولیس اور سیکورٹی کے وسیع تر انتظامات کئے گئے تھے اس کے باوجود نکسلائیٹس کی کارروائیوں نے سیکورٹی فورس کو پریشان کن صورتحال سے وچار کردیا۔ پیر کے دن ہوئی رائے دہی کے موقع پر ماوسٹوں نے بڑی کارروائی کی اس کے دوسرے دن بھی ماوسٹوں کے ساتھ انکاؤنٹر میں دو سی آر پی ایف جوان زخمی اور چار ماوسٹ ہلاک ہوئے۔ کوبرا نامی یونٹ سے وابستہ جوان اس ریاست میں ماوسٹ سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے سیکورٹی پر تھے۔ گزشتہ 17دن میں چھتیس گڑھ کے اندر یہ 6واں نکسلائیٹس حملہ تھا جو ریاستی اور مرکزی حکومت کیلئے غور طلب ہے۔ رائے دہی سے چند منٹ قبل ماوسٹوں نے ضلع دانتے واڑہ میں طاقتور بم دھماکہ کیا جس میں سی آر پی ایف کی تلاشی ٹیم بال بال بچ گئی۔ سیکورٹی جوانوں نے اگرچیکہ اپنی جان پر کھیل کر رائے دہندوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر ماوسٹوں کی عصری تیاری اور ان کے مخصوص طریقہ سے کئے جانے والے حملے ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کیلئے مزید چوکسی اور عصری ہتھیاروں سے لیس ہونے کی ضرورت پر توجہ دلاتے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے عوام نے ماوسٹوں کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے حق ووٹ کا استعمال کیا۔ 70فیصد رائے دہی مقامی عوام کی جرأت کا مظہر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور نظم و نسق کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ عوام کی زیادہ سے زیادہ سلامتی کو یقینی بنائیں۔ ماوسٹوں نے صرف دو ہفتوں میں3 حملے کرکے سیکورٹی کے 8 جوانوں اور پانچ شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔ 30 اکٹوبر کو دوردرشن کا کیمرہ مین ماوسٹ حملہ میں ہلاک ہوا۔ ماوسٹوں کی کارروائیوں سے ان سیاستدانوں کو دھاندلیاں کرنے میں مدد ملی جو ماحول میں پائے جانے والے خوف کے پیش نظر پولنگ بوتھس تک پہنچنے میں بعض رائے دہندے ناکام ہوئے تھے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں حالات غیر موافق ہوگئے تھے اور بی جے پی کی حکومت ہے اس لئے رائے دہندوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں اپنی ذمہ داریوں کو بروئے کار نہیں لایا۔ حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ اس کے پاس سرکاری مشنری ہونے کے باوجود وہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ مرکز میں بی جے پی اور ریاست میں بھی اسی پارٹی کو اقتدار حاصل ہے اور اب وہ دوبارہ حکومت بنانے کے دعوے بھی کررہی ہے۔ ماوسٹوں کی کارروائیوں کی آڑ میں بوتھس پر قبضہ اور دھاندلیوں کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کو جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔اپوزیشن کانگریس نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ بی جے پی نے چھتیس گڑھ میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کی ہے۔ مغربی بنگال کو ماوسٹوں کا گڑھ مانا جاتا ہے مگر وہاں پر ترنمول کانگریس کی حکومت آنے کے بعد ماوسٹوں کی ناراضگیوں میں کمی آئی اور ان کی سرگرمیاں بھی بند ہوگئی ہیں۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی نے چھتیس گڑھ کے حالیہ واقعات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومت کو یاد دلایا تھا کہ بنگال میں نکسلزم مسئلہ کو نمٹتے ہوئے ممتا بنرجی حکومت نے باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو سماجی دھارے میں لانے کا کام کیا ہے۔ مرکز کی بی جے پی حکومت اور چھتیس گڑھ کی رمن سنگھ دونوں گزشتہ 15 سال سے ماوسٹ شورش کو حتم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ نکسلائیس کے مسائل پر توجہ دی جائے تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا۔چھتیس گڑھ ، اوڈیشہ اور آندھرا پردیش میں نکسلائیٹس سرگرمیوں کو ناکام بنانے کے لئے پولیس اور سیکورٹی فورس کی حالیہ چوکسی اور تلاشی مہم کے بعد اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ نکسلائٹس اب اپنا رُخ انتخابات والی ریاست تلنگانہ کی جانب کررہے ہیں لہذا ریاست تلنگانہ کی حکومت اور پولیس کو چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔