عرب کے ایک گاؤں میں چار بھائی رہتے تھے۔ وہ چاروں ماہر کھوجی تھے۔ ایک دفعہ وہ صحرا میں کسی کام سے نکلے۔ صحرا میں وہ ایک اونٹ کے پاؤں نشان دیکھتے دیکھتے آگے بڑھنے لگے۔ چلتے چلتے وہ ایک اور عربی شخص سے جاملے۔ اس عربی نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس کا گم شدہ اونٹ دیکھا ہے۔کیا وہ ایک آنکھ سے اندھا اور ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا ؟ ان چاروں میں سے ایک بھائی نے پوچھا۔ کیا اس کی دم نہیں تھی ؟ دوسرے بھائی نے دریافت کیا۔
کیا اس کے ایک طرف اناج کی بوری اور ایک طرف شہد کا ڈول لٹک رہا تھا ؟ تیسرے بھائی نے پوچھا۔ عربی : ہاں ہاں بالکل یہی اونٹ تھا۔ کیا تم جانتے ہو وہ کس نے چرایا ہے۔ ہم نے تمہارا اونٹ کبھی نہیں دیکھا۔ چوتھے بھائی نے جواب دیا۔ عربی کو پختہ یقین تھا کہ انہوں نے ہی اس کا اونٹ چرایاہے۔ اس لئے وہ ان کو قاضی کی عدالت میں لے گیا۔ قاضی نے عربی کا موقف سن کر ان سے پوچھا کہ وہ اپنی صفائی میں کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پہلے بھائی نے کہا کہ اونٹ نے چونکہ راستے کے صرف ایک طرف کی گھاس کھائی۔ اس لئے یقیناً وہ کانا ہوگا۔ اس کے ایک کھر کے نشانات دوسروں کی نسبت مدہم تھے اس باعث اس کا لازماً لنگڑا ہونا چاہئے۔ دوسرے بھائی نے کہا کہ میں نے مشاہدہ کیا کہ اونٹ نے جہاں بھی بیٹ کی ڈھیر کی شکل میں کی۔ حالانکہ عام حالات میں اس کو بکھرا ہوا ہونا چاہئے تھا۔ بیٹ دم کے ساتھ لگ کر بکھر جایا کرتی ہے۔ اس لئے میرے خیال کے مطابق اونٹ کو دم کٹا ہونا چاہئے تھا۔ قاضی نے کہا کہ ’’ یہ سب تو میں بھی مانتا ہوں۔ مگر تمہیں اس کے سامان کے بارے میں کیسے پتا چلا ؟۔ تیسرے بھائی نے کہا کہ ’’ راستے کے ایک طرف اناج کے کچھ دانے گرے ہوئے تھے اور چیونٹیاں ان کو بلوں میں لے جارہی تھیں اور راستے کے دوسری طرف مکھیاں شہد کے قطرے چوس رہی تھیں۔ اس لئے ہم نے اس پر لدے ہوئے سامان کا اندازہ لگا لیا۔ اس پر قاضی نے چاروں بھائیوں کو آزاد کردیا اور انہیں اپنے پاس ملازمت پر رکھ لیا اور ان کی حیرت انگیز صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ مستقبل میں ان چاروں نے بہت سارے چور پکڑنے میں قاضی کی مدد کی۔