دہلی پر روہیلوں کا قبضہ

میاں محمد افضل

دہلی کے بادشاہ ’’شاہ عالم‘‘ کو صرف اس بات سے غرض تھی کہ لال قلعہ میں جو بادشاہی خوابگاہ ہے، وہاں اسے سکون سے رہنے دیا جائے، خواہ ملک کا حال کچھ بھی ہو، لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سکون ڈھونڈنے والے حکمرانوں کو سب سے زیادہ تکلیف دہ نشیب و فراز اور خلشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، لہذا شاہ عالم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سلطنت کی ابتداء میں عماد الملک کے خوف سے اسے دس بارہ سال صوبہ بہار میں خود اختیار کردہ جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔ احمد شاہ ابدالی نے محض یہ خیال کرکے اسے دہلی کا حکمراں تسلیم کرلیا تھا کہ اور کوئی مناسب خاندانی بادشاہ موجود نہ تھا۔ انگریزوں سے معاہدہ کے بعد اس کی حیثیت ایک برائے نام وظیفہ خوار حکمراں کی رہ گئی تھی۔ اگرچہ ابدالی کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد مرہٹوں کی قوت برباد ہوچکی تھی، لیکن بادشاہ دہلی کو کٹھ پتلی بنانے کے لئے ان کے پاس کافی دم خم موجود تھا۔

۱۷۸۸ء میں روہیلوں نے دہلی پر حملہ کرکے بادشاہ کو قیدی بنالیا اور امراء کی سازش سے اسے اندھا کردیا، یوں اپنی زندگی کے آخری کئی سال شاہ عالم نے معذوری اور محتاجی میں گزارے۔ جس تخت پر ایک اندھا بیٹھا ہو، وہاں سے کس قسم کی حکمرانی کی امید کی جاسکتی ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی مقتدر قوتوں (انگریز، مرہٹے اور روہیلے وغیرہ) کو بھی اسی قسم کا اندھا، بیمار اور محتاج بادشاہ تخت دہلی پر زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا۔ دہلی پر روہیلہ حملے اور اس کے نتیجے میں شاہی خاندان پر آنے والی آفت کے اثرات ہندوستان بھر میں محسوس کئے گئے۔ جس طرح پہلے مغلیہ سلطنت پر کاری ضرب لگانے والا بظاہر ایک مسلم فاتح (نادرشاہ) تھا، اس مرتبہ بھی یہ کردار ایک مسلم سردار نے ادا کیا اور خاندان مغلیہ کی رہی سہی عزت خاک میں مل گئی۔

احمد شاہ ابدالی مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد ایک روہیلہ افغان سردار نجیب الدولہ کو بادشاہ دہلی کا وزیر اعظم مقرر کردیا گیا تھا۔ یہ ایک لائق منتظم تھا اور شاہ عالم کی دارالحکومت سے غیر حاضری کے دس بارہ برسوں میں وہی عملاً دہلی کا حکمراں تھا۔ ۱۷۷۰ء میں اس کے انتقال کے بعد شاہ عالم دہلی واپسی پر آمادہ ہوا۔ اسی دور میں شمالی ہندوستان میں روہیلہ افغانوں نے بہت زور پکڑا اور مرہٹوں سے ان کی جھڑپیں ہونے لگیں۔ دسری طرف تخت دہلی مرہٹوں کے زیر اثر آچکا تھا اور شاہ عالم مرہٹہ سردار سندھیا کے زیر تحفظ تھا۔ سندھیا کو مغل دربار میں ’’وکیل المطلق‘‘ کا خطاب دیا گیا اور وہ دربار کا طاقتور ترین امیر بن گیا۔ یہ صورت حال روہیلوں کے لئے قابل قبول نہ تھی، چنانچہ سابق وزیر اعظم نجیب الدولہ کے پوتے غلام قادر روہیلہ کی قیادت کی میں روہیلہ افغانوں نے مغل سلطنت کے خلاف بغاوت کی اور دہلی پر حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنی تیزی سے ہوا کہ مرہٹہ سردار کو اسے روکنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور روہیلے قلعہ پر قابض ہوکر شاہی محل میں داخل ہو گئے۔ یہ واقعہ ۱۷۸۸ء کا ہے۔ غلام قادر روہیلہ نے تلوار کی نوک پر اپنے آپ کو بادشاہ دہلی کا وزیر اعظم مقرر کرلیا،

اس کے بعد اس نے بادشاہ پر مرہٹوں کے ساتھ ساز باز کا الزام لگاکر اسے محل کے ایک گوشہ میں محبوس کردیا اور خاندان تیموریہ کے ایک گمنام شہزادہ کو بیدار بخت کے خطاب سے جانشین بنادیا، جب شاہ عالم کو تلوار کی نوک پر مجبور کیا کہ وہ نئے بادشاہ کے سامنے آداب بجالائے۔ بادشاہ اور اس کے خاندان کو تین دن اور تین راتیں بھوکا پیاسا ایک جگہ قیدر کھا گیا۔ اس دوران پورے شاہی محل میں خزانوں اور جواہرات لوٹنے کے لئے تلاشی مہم جاری رہی۔ اس کا خیال تھا کہ بادشاہ دہلی کے پاس بہت بڑا خزانہ ہے، جسے کسی خفیہ جگہ چھپا رکھا ہے، چنانچہ اس خزانہ اور دولت کو حاصل کرنے کے لئے اس نے مغل بادشاہ اور اس کے حرم پر بے پناہ ظلم و ستم کئے۔ بالآخر خزانہ کی تلاش میں ناکام غلام قادر، معزول شاہ عالم کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ وہ خفیہ خزانہ کا پتہ بتائے۔

کمزور اور ضعیف شاہ عالم نے تنگ آکر جواب دیا ’’اگر تم سمجھتے ہو کہ خزانہ میں نے کہیں چھپا رکھا ہے تو پھر وہ اندر ہوتا، میرے پیٹ کو پھاڑکر دیکھ لو تاکہ تمھیں تسلی ہو جائے‘‘۔ تین دن تک محل کے تمام کمروں کے فرش کھودے گئے، لیکن کوئی دفینہ یا خزانہ ہاتھ نہ آیا۔ اس کے بعد غلام قادر نے غضبناک ہوکر دیوان خاص میں شاہ عالم کو اپنے سامنے طلب کیا اور ایک بار پھر اس سے خفیہ خزانہ کے بارے میں پوچھا، لیکن شاہ عالم نے وہی پہلے والا جواب دیا۔ اس پر غلام قادر نے کہا ’’تو پھر دنیا میں تمہارا کوئی فائدہ نہیں، لہذا تمھیں اندھا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یوں بادشاہ دہلی کو پٹھانوں نے اندھا کردیا اور محل کی عورتوں کی چیخوں اور رونے کی آوازوں کے درمیان اسے سلیم گڑھ منتقل کردیا۔ (دی مغل امپائر۔ ایچ، جی، کین)۔ (تاریخ زوال امت سے اقتباس)