دہلی میں چندرا بابو نائیڈو کی سرگرمیاں

چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو نے دارالحکومت دہلی میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کے اہم قائدین سے ملاقات کر کے خاص کر علاقائی پارٹیوں سے اپیل کی کہ مرکز میں این ڈی اے حکومت نے جو نا انصافیاں کی ہیں اس پر اظہار تشویش کرنے میں تلگودیشم کا ساتھ دیں ۔ علاقائی سطح پر جن ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکمرانی ہے ان ریاستوں کے ساتھ مرکز کا رویہ سراسر سوتیلا ہے ۔ اپنی ریاست آندھرا پردیش کو اولین ترجیح دے کر نائیڈو نے قومی سطح پر اپوزیشن سیاستدانوں کو یکجا کرنے کی مساعی شروع کی ۔ نریندر مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی تلگو دیشم نے علاقائی اور بائیں بازو پارٹیوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے ریاستوں کو نظر انداز کردینے والے مرکزی رویہ کے خلاف ایک مضبوط مورچہ بندی کی پہل کی ہے ۔ وہ اب مرکز کے سامنے آندھرا پردیش کے لیے خصوصی موقف دینے کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے ۔ دہلی میں نائیڈو کی موجودگی نے کئی علاقائی پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد کی ہے ۔ اس طرح کی مشترکہ کوششوں سے ہی مودی حکومت کے یکطرفہ رویہ کو مسترد کردینے میں کامیابی ملے گی ۔ چندرا بابو نائیڈو کو اپنے طویل سیاسی کیرئیر کا بہترین تجربہ ہے ۔ گذشتہ چار دہوں سے وہ سرگرم سیاست میں تیز فہم اور تدبر و فراست کی حامل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ خاص کر اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں انہیں منفرد سیاسی ہنر حاصل ہے ۔ وہ عوام کے مزاج کو دیکھ کر اپنے سیاسی موقف میں تبدیلی لاتے ہیں ۔ سیاسی اتحاد کرنے یا اس اتحاد کو توڑنے کا چندرا بابو نائیڈو کو دیرینہ تجربہ ہے ۔ تلگو دیشم پارٹی کو متحدہ آندھرا پردیش میں کئی سیاسی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ پارٹی کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں سے نمٹنا ہو یا پارٹی کے حق میں رائے عامہ کو مضبوط بنانا ہو ہر دو امور میں تلگو دیشم نے ہر محاذ کا حاضر دماغی سے کام لے کر سامنا کیا ہے ۔ تلگو دیشم نے 1984 میں سب سے پہلے باغیانہ گروپ کا مقابلہ کیا تھا ۔

ناندیڑلا بھاسکر راؤ نے این ٹی آر کے خلاف اپنی سیاسی طاقت مجتمع کرکے مختصر وقفہ کے لیے اتھل پتھل کردیا تھا لیکن تلگو دیشم اس بغاوت کے بعد مزید مضبوط ہوگئی ۔ دوسری مرتبہ بغاوت خود چندرا بابو نائیڈو نے اپنے خسر این ٹی آر کے خلاف 1995 میں کی تھی اور پارٹی کی باگ دوڑ کو سنبھالا تھا جس کے بعد سے نائیڈو تلگو دیشم کے لیے ایک ناقابل شکست طاقت ثابت ہوئے ۔ لیکن فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے تلگو دیشم کا سیکولر سیاسی کردار مشکوک ہوگیا اور وہ سیکولر رائے دہندوں سے دور ہوگئی مگر 2014 میں فرقہ پرستوں سے اتحاد کے ذریعہ ہی چندرا بابو نائیڈو کو منقسم آندھرا پردیش میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا ۔ نریندر مودی کی سیاسی سرمایہ طاقت کے سہارے نائیڈو نے اگرچیکہ آندھرا پردیش میں گذشتہ چار سال سے چیف منسٹر کی حیثیت سے کام انجام دیا ہے لیکن عین عام انتخابات کے قریب آندھرا پردیش کے رائے دہندوں کا موڈ اور مزاج کو بھانپ کر کے ہی انہوں نے مودی حکومت کے خلاف علم بغاوت کردیا ۔

اپنے علاقہ میں سیاسی عدم اعتماد کی فضا پیدا ہونے کا اندیشہ محسوس کرتے ہوئے ہی نائیڈو نے مرکز سے لے کر علاقائی سیاست تک نئی صف بندی شروع کردی ہے ۔ عام انتخابات کے آنے تک چندرا بابو نائیڈو کو اپنی حکومت بچانا اور دوسری میعاد کو یقینی بنانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے تو مرکزی حکومت پر الزام عائد کر کے علاقائی پارٹیوں کے حق میں اپنی بقا کے لیے سیاسی رابطہ کاری اور مشاورت کے میدان میں سرگرم ہونا لازمی تھا ۔ اپنی ریاست کے لیے نئے دارالحکومت کی تعمیر کا کام مشکل ترین مرحلہ ہے ۔ تاہم نائیڈو پورے عزم اور استقلال کے ساتھ دارالحکومت امراوتی کی تعمیر کے لیے فنڈس اکھٹا کرنے کوشاں ہیں ۔ وہ اپنے خواب کو مرکز کی جانب سے خصوصی موقف حاصل کر کے پورا کرنا چاہتے تھے مگر جب مرکز نے اپنا اصلی چہرہ دکھایا تو انہیں احساس ہوا کہ سیکولر اور غیر سیکولر کے درمیان ان کی دوڑ دھوپ انہیں اپنے ہی رائے دہندوں کی نظروں سے دور کرنے کا موجب بن رہی ہے تو انہوں نے مرکز کے خلاف آواز اٹھاکر اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا نائیڈو کی مخالف مودی حکومت سرگرمیوں سے ان کے رائے دہندے کس قدر ناراض ہوتے ہیں یا حقیقتاً آندھرا پردیش کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ نائیڈو اپنی ریاست کے عزت و وقار کو بلند رکھنے کے لیے مرکز کو سبق سکھائیں ۔ ہر دو جانب نائیڈو کے لیے ایک امتحان کا مرحلہ ہے ۔ اس میں کامیابی پر انہیں تلگو عوام کے مسیحائی کا درجہ ملے گا یا پھر وہ گمنامی کا شکار ہوجائیں گے ۔۔