دہلی میں اتحاد کی کوشش ناکام

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
دہلی میں اتحاد کی کوشش ناکام
ملک بھر میں انتخابات کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے اور جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں ملک کی 115 لوک سبھا نشستوں کیلئے تیسرے مرحلے میںووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ انتخابات کے مزید چار مراحل باقی ہیں اورا س کیلئے سرگرمیاں عروج پر پہونچ رہی ہیں۔ آخری مراحل میں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں دہلی بھی شامل ہے ۔ دہلی میں لوک سبھا کے سات حلقے ہیں اور یہاں عام آدمی پارٹی برسر اقتدار ہے ۔ اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیلئے کوشش کی تھی ۔ ابتدائی مراحل میں کانگریس نے بھی اس تعلق سے دلچسپی کا اظہار کیا تھا لیکن اب یہ کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ دونوںجماعتیں تنہا مقابلہ کرینگی اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے ۔ عام آدمی پارٹی دہلی میں اسمبلی کی 67 نشستوںپر کامیابی حاصل کرچکی جماعت ہے اور اگر اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی تھی تو اسے قبول کیا جانا چاہئے تھا ۔ جو فارمولا تیار کیا گیا تھا اس پر دونوں جماعتوں میں اختلاف رائے ابتداء ہی سے تھا ۔ ہریانہ اور چندی گڑھ کیلئے عام آدمی پارٹی کا اصرار تھا کہ کانگریس وہاں بھی اتحاد کرے لیکن کانگریس وہاں اتحاد کیلئے تیار نہیں تھی اور صرف دہلی میں یہ اتحاد کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس وقت بھی عام آدمی پارٹی نے کانگریس کو لوک سبھا کی دو نشستیں چھوڑنے سے اتفاق کیا تھا اور خود پانچ حلقوں سے مقابلہ کرناچاہتی تھی جبکہ کانگریس پارٹی عام آدمی پارٹی کو چار اور اپنے لئے تین نشستوں کے مطالبہ پر اٹل رہی ۔ ایسے میں محض ایک نشست کیلئے تکرار کی وجہ سے اتحاد نہیں ہوسکا ہے اور اس کا انتخابی نتائج پر اثر پڑسکتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں مرکزی قیادت کی رائے کے برخلاف علاقائی اور ریاستی قائدین نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے اور اپنی اپنی قیادت کو کسی قطعی فیصلے پر پہونچنے سے روک دیا ۔ یہی وجہ رہی کہ دونوں جماعتوں میں خواہش کے باوجود یہ اتحاد ممکن نہیں ہوپایا ہے ۔ حالانکہ دہلی میں زیادہ لوک سبھا نشستیں نہیں ہیں لیکن یہاں اگر دونوں جماعتوں کے مابین اتحاد ہوجاتا تو اس کی سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہوتی اور اس کے اثرات دوسری ریاستوں میں بھی مرتب ہوتے ۔
دہلی میں کانگریس کی جانب سے شیلا ڈکشت ایسا لگتا تھا کہ اس اتحاد کے ابتداء سے خلاف رہی ہیں اور ان کی یہی مخالفت پارٹی پر غالب آگئی ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شیلا ڈکشت کو اروند کجریوال سے شدید اختلاف ہے کیونکہ تین مرتبہ چیف منسٹر رہنے کے باوجود کجریوال نے انہیں دہلی اسمبلی انتخابات میں کراری شکست سے دوچار کیا تھا ۔ یہ شکست ایسی تھی جس کے نتیجہ میں شیلا ڈکشت کا کیرئیر ہی متاثر ہوگیا تھا تاہم شیلا ڈکشت بھی ایک تجربہ کار اور گھاگھ سیاستدان ہیں اور انہوں نے کانگریس کے اہم حلقوں میں واپسی کی ہے ۔ تاہم دونوں ہی جماعتوں کے مقامی اور ریاستی قائدین نے اپنے اپنے ذاتی اختلافات کو پارٹی کے مفادات پر ترجیح دی ہے اور اس سے دونوں ہی جماعتوں کو نقصان ہونے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ دونوںجماعتوں کے قائدین کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے اختلافات اور اپنی برہمی کو پارٹی کے مفادات پر غلبہ حاصل کرنے کا موقع نہ دیتے ۔ کانگریس کو عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے نتیجہ میں ملک کی کچھ اور لوک سبھا نشستوں پر بھی مدد مل سکتی تھی کیونکہ عام آدمی پارٹی کے تعلق سے عوام میں جو خیرسگالی جذبات ہیں اس سے کانگریس کو فائدہ ہوسکتا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی اس امکانی فائدہ کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھی اور اسے اپنی ہی انتخابی مہم اور عوام میں اسے ملنے والے رد عمل سے کافی امیدیں ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس صدر راہول گاندھی نے اب جو حکمت عملی بنائی ہے اور جس پر وہ عمل کر رہے ہیں وہ صرف انتخابات میں کامیابی تک محدود نہیں ہے وہ اپنی پارٹی کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پارٹی کو تنظیمی سطح پر مستحکم کرتے ہوئے عوام میں ایک مثبت پیام دینا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال میں ممتابنرجی سے اتحاد نہ ہوسکا ۔ آندھرا میں تلگودیشم سے قربت کے باوجود دوریاں ہیں۔ یو پی میں مہا گٹھ بندھن میں اسے جگہ نہ مل سکی اور اب دہلی میں بھی کانگریس نے عام آدمی پارٹی کا ہاتھ تھامنے سے گریز کیا ہے ۔ راہول گاندھی کی یہ پالیسی ہوسکتا ہے کہ پارٹی کو مستحکم کرنے کی دیرپا حکمت عملی کا حصہ لیکن فوری طور پر مودی حکومت کو شکست دینے کے مقصد کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے تھا ۔