دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کارروائی

اور سب چن لے میرے دامن سے
زخم دل کے گلاب رہنے دے
دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کارروائی
دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے برسوں سے جاری دباؤ کی پرواہ نہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل آئے گا کہ دیگر طاقتیں ایک ملک کے داخلی معاملوں پر حاوی ہونے کی کوشش کریں گی۔ پاکستان کے تعلق سے اب ایسا ہی کچھ ہونے جارہا ہے تو یہ حکومت پاکستان کے لئے داخلی طور پر پشیمانی کا باعث ہوگا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالف دہشت گردی پالیسی اور پاکستان پر تحدیدات عائد کرنے کے اشاروں کے درمیان اگر پاکستان نے اپنی سرزمین پر پھیلی ہوئی دہشت گرد تنظیموں کے سربراہوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت دکھائی ہے تو اس سے واضح ہوجانا چاہئے کہ سرکاری سطح پر کارروائی کرنے سے ہر خرابی کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کے پڑوسی ملکوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے برسوں کے دباؤ کی پرواہ نہ کرکے پاکستان کی سرزمین کو انتہا پسندوں کی آماجگاہ بنایا جانا خود پاکستانی عوام کے لئے خطرناک ثابت ہوتا گیا ہے، جو تنظیمیں اسلام کے نام پر اپنی سرگرمیوں کو جائز قرار دیتے آرہی تھیں، اب ان پر شکنجہ کسنے کی کوشش سے یہی اشارہ ملے گا کہ واقعی یہ دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پر اپنا منصوبہ بروئے کار لارہی تھیں۔حکومت کے اقدام سے غلط تاثر مل رہا ہے۔ صدر امریکی کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف لینے کے بعد معلنہ پالیسیوں پر عمل آوری کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے باہر جو احساس پیدا ہورہا ہے، یہ بھی ایک خطرناک اور افسوسناک تبدیلی کا مظہر ہے۔ امریکہ کی تابعداری یا چوکیداری کرنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کو آج پھر ایک بار عالمی سطح پر اس حوالے سے رسواء ہونا پڑے گا کہ اس نے امریکہ کے ڈر سے ہی جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور دیگر قائدین کو نظربند کردیا ہے۔ امریکہ اور چین کے بشمول کئی ملکوں نے جس طرح کا دباؤ ڈالا ہے، اس سے چوکس ہونا پاکستان کے لئے ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید کی کارروائیوں کو ختم کرنے کے اقدامات کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے لاہور میں واقع جماعت الدعوۃ کے ہیڈکوارٹر کا محاصرہ کرلیا اور حافظ سعید کو ان کی رہائش گاہ پر تین ماہ کے لئے نظربند کردیا۔ پاکستان کی اس کارروائی کے مستقبل میں کیا سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ بھی حکومت کی سختی و نرمی پر منحصر ہے۔ اگر حکومت پاکستان نے دہشت گردی کے لئے بدنام تنظیموں پر شکنجہ کسنے کی ہمت دکھائی ہے تو اس ہمت کو مزید قوی بناتے ہوئے پاکستان میں امان و امان اور شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی اس کی دستوری ذمہ داری ہے لیکن برسوں سے اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان پر تحدیدات کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ قراردادیں نئی نہیں ہیں۔ برسوں سے یہ قرارداد اپنی جگہ موجود تھیں مگر پاکستان کے اندر اپنی خود کی مجبوریاں تھیں۔ ممبئی میں نومبر 2008ء کو دہشت گرد حملوں کے بعد عالمی ادارہ نے جماعت الدعوۃ پر پابندیاں لگائی تھیں اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود اس تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر یکا و تنہا کرنے کی کوششیں نئی نہیں ہیں۔ برسوں سے پاکستان کو استعمال اور نظرانداز کرنے والی طاقتوں نے ہی اس کا فائدہ بھی اٹھایا ہے اور وقت آنے پر اس کا استحصال بھی کیا ہے۔ پاکستان اس لئے بین الاقوامی سطح پر یکا و تنہا ہونے کا شکار ہے کیوں کہ یہاں بعض طاقتور ممنوعہ گروپ آزادی سے اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان اور عوام دونوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آخر عالمی برادری کی جانب سے ان پر اُنگلیاں کیوں اُٹھتی ہیں۔ اگر حکومت پاکستان نے شروع سے ہی دہشت گرد تنظیموں پر شکنجہ کسا ہوتا تو آج اسے شدت سے نشانہ بننے کی نوبت نہیں آتی۔ اگرچیکہ پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف قومی الیکشن پلان موجود ہے، اس کا استعمال کرکے اس دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی تھی۔ حکومت پاکستان کو اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ کے لئے کچھ اچھے قدم اٹھنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی طاقت کا دباؤ پڑنے سے پہلے ہی اگر حکومت پاکستان اپنی سرزمین کو امن کا گہوارہ اور خراب عناصر سے پاک بنانے کے اقدامات کرے تو آئندہ کی دنیا ایک نئی تبدیلی کے ساتھ سارے عالم میں ایک مثالی کوشش کے ساتھ فروغ پائے گی۔ پاکستان کے آج کے حالات کی ابتری کے لئے حکمراں طبقہ، فوج اور سرکاری عہدیداروں کو ذمہ دار سمجھا جارہا ہے تو عوام کو اپنے ملک کے سربراہوں کے خلاف فیصلہ سازی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔