حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم بہت دُور دراز کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ دیکھا تو مالدار ہیں، نوابوں کے سے کارخانے ہیں، امیروں کی سی بارگاہ، نوکر چاکر۔ اُس شخص نے اپنے دِل میں کہا کہ یہاں خدا پرستی کا کیا ذکر ہے؟ لیکن چونکہ دور سے آیا تھا، اس لئے قیام کیا۔ دونوں وقت شیخ کی خدمت میں جاتا۔ ایک روز شیخ کے نام کسی خادم کا خط آیا کہ فلاں جہاز جس پر دو لاکھ روپئے کا مال تجارت کو جاتا تھا، ڈوب گیا۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا… الحمدللہ۔ پھر چند روز کے بعد اُسی خادم کا خط آیا کہ وہ جہاز جو مال تجارت لے کر ڈوبا تھا، نکل آیا اور مال کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔ شیخ نے سن کر فرمایا… الحمدللہ۔ تب تو طالب علم سے رہا نہ گیا، اور پوچھا اگر ارشاد ہو تو ایک شبہ عرض کروں؟ فرمایا کرو۔ اس نے عرض کیا… حضرت! یہ مال تجارت دو حال سے خالی نہیں۔ مال حلال ہے یا مال حرام؟ اگر حلال ہے تو اس کے تلف پر الحمدللہ کہنا کیا معنی؟ شیخ نے مسکراکر فرمایا… مال تو حلال و طیب ہے، لیکن شکر نہ ضائع ہونے پر تھا، نہ ہی بچ جانے پر۔ جب مجھ کو تلف کی خبر ہوئی تو میں نے اپنے دِل کی حالت پر نظر کی کہ دیکھوں اس نقصان نے کیا اثر پیدا کیا؟ غور کیا تو معلوم ہوا کہ دِل پر مطلق اثر نہیں، پھر بچ جانے کے وقت بھی دِل کا وہی حال پایا۔ پس میں نے دونوں حالتوں میں اس بات کا شکر کیا۔ الحمدللہ، دنیا کا نفع و نقصان میری نظر میں ہیچ ہے۔ بے شک، دنیا کے تعلقات میں آلودہ رہ کر بے تعلق رہنا حق کا کام ہے۔
دوستو! جو ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے، اس کی دنیا اس کے لئے جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔
ہر حال میں راضی برضا ہو تو مزہ دیکھ
دنیا ہی میں رہتے ہوئے جنت کا مزہ دیکھ