دُنیا کو آخرت پر ترجیح دینا بُرا ہے

محدث دکن حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ

جو لوگ آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے جنین (پیٹ کے اندر کا بچہ) ماں کے پیٹ کو ایک عالم پُرفضا سے اچھا اور وہاں کے خون کو بہترین غذا سمجھتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ناپائیدار دنیا کو اپنا گھر سمجھ کر اس کی لذتوں پر مر مٹتے ہیں، دنیا کے مال و دولت کو عیش جاودانی سمجھ کر آخرت کو بھولے ہوئے ہیں اور اپنی عادات و خواہشات سے باز نہیں آتے، ان لوگوں کو آخرت کا چسکا ہی نہیں۔
دنیا (داری) کرنا برا نہیں ہے، دنیا کو آخرت پر مقدم کرنا برا ہے۔ ہم چوری، زنا، شراب، سود خوری وغیرہ کو گناہ سمجھتے ہیں، لیکن کبھی آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا گناہ نہیں سمجھتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ ’’بھائی! ہم تو دنیادار ہیں، ہم سے دنیا چھوڑی نہیں جاتی۔ یہ کام تو انھیں کا ہے جو بیوی بچہ وغیرہ نہیں رکھتے اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہیں‘‘۔ اس خیال کے لوگ سخت گمراہ ہیں، شدید عذاب کے مستوجب ہوں گے، اس لئے کہ مسلمان دنیادار ہو ہی نہیں سکتا، یہ صفت تو غیر مسلموں کی ہے، ان کا ہر معاملہ دنیا ہی کے لئے ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے مسلمان کا ہرمعاملہ آخرت کے لئے ہے۔ مسلمان دنیا اختیار کرتا ہے تو آخرت کو سنبھال کر۔ جو دنیا آخرت کے ساتھ کی جاتی ہے، وہ دنیا نہیں بلکہ آخرت ہی ہے۔
ہمیں آخرت پر اعتقاد ہے اور آخرت کو دنیا سے افضل بھی سمجھتے ہیں، لیکن اس سے کیا فائدہ جب کہ اعتقاد کے موافق عمل نہ ہو۔ جہاں دنیا و آخرت کا تعارض ہوتا ہو، وہاں ہم دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ نماز کے وقت دنیا کا کوئی کام آجائے تو دنیا کے کام کو ہم نماز پر مقدم کرتے ہیں۔ ہم دنیا کو آخرت پر اس وجہ سے ترجیح دے رہے ہیں کہ دنیا قریب ہونے سے مثل نقد سودے کے حاصل ہوتی ہے اور آخرت دنیا سے کہیں زیادہ نفع بخش ہے، اگرچہ کہ دور ہے۔ دیکھئے! زراعت میں آئندہ کی توقع پر جو ادھار ہے، موجودہ تخم کو جو نقد ہے، مٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی آخرت ادھار تو ہے، لیکن نقد دنیا کی طرح فانی نہیں۔ عقلمندی تو یہی ہے کہ مثل زراعت کے یہاں بھی نقد دنیا پر ادھار آخرت کو ہی ترجیح دینی چاہئے، لیکن اب یہاں معاملہ برعکس ہے۔
اللہ تعالی کی رحمت و غضب کا معیار فرماں برداری و نافرمانی پر ہے۔ فرماں برداروں پر رحمت ہوتی ہے اور نافرمانوں پر غضب۔ مال و دولت کا خاصہ یہ ہے کہ انسان اترانے لگتا ہے، خدائے تعالی کے احکام کی پابندی بار معلوم ہوتی ہے۔ ان کا اس طرح اترانا بے سود و لاحاصل ہے۔ اس دنیا کی زندگی اور عیش و عشرت، آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں، محض ایک آن کا نفع ہے، جیسے خواب و خیال۔
دنیا کو چند روزہ سمجھو (دنیا کی زندگی تو صرف دھوکہ کی ٹٹی ہے)، پھر دنیا تم کو کچھ ضرر نہ دے گی۔ دنیا کو کروگے آخرت پر نظر رکھ کر اور خدائے تعالی کو راضی رکھ کر کروگے اور دنیا پر نہ اتراؤگے تو ہمیشہ آخرت کی دُھن رہے گی۔ اصلی اور دائمی خوشی آخرت کی ہے۔ شریعت غراء محمدیﷺ کی پابندی کے ساتھ میرے بتلائے ہوئے ذکر پر مداومت رکھو، خدائے تعالی یہ خوشی بھی عطا فرمائیں گے۔
دنیا کے کاروبار کرنا کچھ برا نہیں ہے، دنیا میں کھپ جانا برا ہے۔ دنیا میں کھپ جانے کا یہ مطلب ہے کہ ایسی دنیا کرنا، جس سے آخرت ترک ہو جائے یا آخرت کو ضرر پہنچے۔ ایسی دنیا بہت بری ہے، اس سے بچنا چاہئے۔ ذرا سی ہمت کرو اور ایسی دنیا کرو جس سے آخرت نہ بگڑے۔ جب دین و دنیا کے معاملات ایک وقت پیش ہوں تو دین کو ترجیح دو۔ (مواعظِ حسنہ سے ماخوذ)
اخلاص
اخلاص کے یہ معنی ہیں کہ محض حق تعالی کی ذات مقصود ہو اور جو کام بھی کیا جائے اللہ تعالی کے واسطے اور ان کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو، نہ اس میں کسی قسم کی ریا و نمود ہو اور نہ نفس کا حظ۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص کی تین علامتیں ہیں: (۱) عوام سے مدح و ذم کی مساوات (یعنی عوام کا آپ کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا، دونوں کا آپ کی نظر برابر ہو جانا) (۲) اعمال میں دکھاوا نہ ہونا (۳) حصول ثواب کو آخرت پر چھوڑ دینا۔ حضرت ابوالحسن پوشنگی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اخلاص وہ ہے کہ کراماً کاتبین اس کو لکھ نہ سکیں اور شیطان لعین جس کو تباہ نہ کرسکے اور کسی آدمی کو اس کی خبر تک نہ ہو‘‘۔ ہمارا ہر کام خدا کے لئے اور خدا کی مرضی کے موافق ہونا چاہئے اور نفسانیت کا اس میں مطلق دخل نہ ہو۔ بزرگوں کا یہی شیوہ رہا ہے اور اس سے خدا بھی راضی و خوش ہوتا ہے۔
حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ اتفاقاً دریائے دجلہ کے کنارے گئے ہوئے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ جہاز سے شاہی شراب کے مٹکے اتر رہے ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا کہ ’’معتصم باللہ جو بہت بڑا بادشاہ ہے، اس کے لئے شراب جا رہی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی آپ غصے میں بھر گئے اور لاٹھی لے کر گھڑے توڑنا شروع کردیا اور یکے بعد دیگرے نو مٹکے توڑ دیئے، صرف ایک گھڑا رہ گیا۔ چوں کہ شاہی شراب تھی، اس لئے آپ کو براہ راست بادشاہ کے پاس پیش کردیا گیا۔ بادشاہ کی عادت تھی کہ ہیبت ناک صورت بناکر دربار کیا کرتا تھا۔ اس نے ان بزرگ کو طلب کرکے پوچھا کہ ’’تم نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘۔ ان بزرگ نے فرمایا ’’جو کچھ میں نے کیا ہے، تمھیں معلوم ہے، پھر پوچھتے کیا ہو‘‘۔ خلیفہ نے غصہ میں آکر کہا ’’اجی تم نے یہ کیا حرکت کی؟ کیا تم محتسب ہو؟‘‘۔ حضرت نے فرمایا ’’ہاں میں محتسب ہوں‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’تم کو کس نے محتسب بنایا؟‘‘۔ حضرت نے کہا ’’جس نے تجھ کو خلیفہ بنایا، اسی نے مجھ کو محتسب بنایا‘‘۔ خلیفہ نے پوچھا ’’اس پر کیا دلیل ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’یا بنی اقم الصلوۃ وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی مااصابک‘‘۔ خلیفہ پر ایک خاص اثر پڑا۔ اس نے کہا ’’اچھا آج سے ہم نے تم کو محتسب بنایا، مگر یہ تو بتاؤ تم نے نو گھڑے توڑے اور ایک گھڑا چھوڑ کیوں دیا؟‘‘۔ حضرت نے فرمایا ’’جب میں نو گھڑے توڑ چکا تو میرے نفس نے کہا ’’ابو الحسن! تونے بڑی ہمت کا کام کیا، خلیفۂ وقت سے نہیں ڈرا‘‘۔ میں نے اسی وقت ہاتھ روک لیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے نو گھڑے توڑے تھے، اب نفس کی خواہش سے توڑنا ہوتا، اس لئے میں نے دسواں گھڑا چھوڑ دیا‘‘۔ (مواعظِ حسنہ سے ماخوذ)