دو اور تین

 

ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بُنکر رہتا تھا ۔ یہ بُنکر بہت غریب تھا ‘ وہ اور اس کی بیوی صبح سے شام تک سوت کاتتے اور کپڑا بنتے مگر انہیں اتنے پیسے نہ مل پاتے کہ پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں اور اپنی پسند کے کپڑے پہن سکیں ۔ صبح سے شام تک کی مزدوری کے بعد جو پیسے ملتے ان سے بنکر چاول خرید لاتا ‘ کبھی کبھی کچھ اور پیسے مل جاتے تو وہ سبزی بھی خرید لیتا ‘ ورنہ زیادہ تر دونوں میاں بیوی کو چاول اور نمک پر ہی گزر کرنا پڑتی ۔
بنکر کی بیوی روز روز چاول اور نمک کھاکھا کر تنگ آگئی ۔ اس کا دل چاہا کہ وہ بھی گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح چاول کے ساتھ مچھلی کھائے ۔ ایک دن شام کو جب بُنکر واپس گھر آیا تو اس کی بیوی بولی۔ ’’ سنتے ہو ‘ پڑوس میں چار دن سے برابر مچھلی پک رہی ہے اور ہم ہیں کہ چار سال ہوگئے مچھلی کی شکل تک دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ بُنکر نے مچھلی کا نام سن کر ہونٹوں پر زبان پھیری اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولا ’’ ہاں ‘‘ کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو مگر کیا کیا جائے ؟ کاش میرے پاس بھی اتنے پیسے ہوتے کہ میں مچھلی خرید سکتا ‘‘ ۔ بیوی نے کہا ’ میں تھوڑا تھوڑا بچاکر کچھ پیسے جمع کروں گی ‘ پھر تو تم مچھلی خرید سکوگے نا ؟ ۔ ہوں ‘ بنکر ہنس کر بولا پیٹ بھر چاول تو ہم خرید نہیں پاتے کہاں سے پیسے بچائیں گے اور کہاں سے مچھلی خریدیں گے ؟ ۔ بیوی چُپ ہورہی ‘ مگر اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ روزانہ کے خرچ میں سے کچھ پیسے ضرور بچائے گی ۔ اس نے خدا سے دعا مانگی کہ اے خدا ‘ میرے خاوند کی کمائی میں برکت دے ۔ خدا نے اس کی دعا قبول کی اور کئی مہینوں کی بچت کے بعد اس نے آٹھ آنے جمع کرلئے ۔بُنکر کو جب اس کی بیوی نے بتایا تو اسے یقین نہیں آیا مگر جب اس نے آٹھ آنے لاکر میاں کے ہاتھ پر رکھے تو وہ بہت خوش ہوا اور بازار جاکر اس نے آدھ سیر مچھلی خریدی ‘ آدھ سیر میں چھوٹی چھوٹی تین مچھلیاں چڑھیں جو وہ لیکر گھر آگیا ۔ بنکر کی بیوی نے بڑی محنت سے مچھلیاں پکائیں اور پلیٹ میں نکال کر جب دونوں کھانے بیٹھے پلیٹ میں مچھلیاں نکالیں ‘ دو خود دکھائیں اور ایک بنکر کو دی ۔