دوصوفی۔ بادشاہ کا دربار اور ایک بزرگ کی خیرخواہی

حضرت عبداللہ حنیف ؒ سے ملنے کیلئے دو صوفی دور دراز ملک سے آئے، جب آپ کی خانقاہ میں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ ؒ بادشاہ کے دربار میں گئے ہیں۔ ان دونوں صوفیوں نے دل میں سوچا کہ یہ کیسا ولی ہے جو بادشاہ کے دربار میں جاتا ہے۔ پھر وہ وہاں سے نکل کر شہر میں گھومنے لگے۔
جب وہ ایک درزی کی دکان کے پاس پہنچے تو انہوں نے سوچا کہ ہمارا خرقہ پھٹ رہا ہے اسے سی لیں۔ چنانچہ درزی کی دکان گئے اور اس سے سوئی طلب کرکے اپنا خرقہ سینے لگے۔ اتفاقاً درزی کی قینچی کھوگئی اور درزی نے گمان کیا کہ میری قینچی انہی دو صوفیوں نے چرائی ہے۔ چنانچہ وہ ان دونوں کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ یہ دونوں میری قینچی کے چور ہیں۔ حضرت عبداللہ حنیف ؒ وہیں تشریف فرما تھے، آپؒ نے بادشاہ سے فرمایا یہ تو دو صوفی منش انسان ہیں، ان کا یہ کام نہیں ہوسکتا، انہیں چھوڑ دو۔ بادشاہ نے حضرت کے کہنے پر ان کو چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے ان دونوں صوفیوں سے فرمایا، بھائی تمہاری بدگمانی درست نہ تھی۔ میں ایسے ہی کاموں کیلئے یہاں آتا ہوں، یہ بات سن کر دونوں آپؒ کے مرید ہوگئے۔