دوبدھسٹوں کی موت کے بعد ریاست راکھین میں روہنگیائیوں پر مظالم کا تازہ واقعات

یانگون۔ جمعرات20ڈسمبر کے روز شورش زہ ریاست راکھین میں پیش ائے دو علیحدہ واقعات میں چار بدھسٹوں کے زخمی ان میں سے دو کی موت کے بعد میانمار فورسس نے تازہ’’ صفائی اپریشنس‘‘ کی شروعات کی ہے۔

مذکورہ واقعات میں ایک پر روہنگیائی مسلمانوں پر الزام ہے۔پیر کی شب مذکورہ تشدد شمالی راکھین کے پیو ما کی مونگ ڈاؤ ٹاؤن شپ علاقے میں شروع ہوا‘ یہ وہی علاقہ ہے جہاں پر پچھلے سال فورسس نے روہنگیائیوں کے خلاف خونی کاروائی کی تھی۔

میانمار فوج کی جانب سے 2017اگست کو روہنگیائیوں کے خلاف کی گئی کاروائی کے بعد سات لاکھ سے زائد روہنگیائی بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے اور اقوا م متحدہ کے تحقیقاتی کاروں نے ملک کی اعلی قیادت کو مذکورہ نسل کشی کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے سزا کا مرتکب قراردیاتھا۔

میانمار نے اس پر کہاتھا روہنگیائیوں دہشت گردوں کے خلاف اپنی دفاع میں فوج نے کاروائی کی تھی جنھوں نے پولیس پوسٹ پر حملہ کیاتھااور اس نے تمام مظالم کے دعوؤں کو مسترد کردیا۔

مگر کمانڈر ان چیف اونگ ہالینگ کے افس نے اپنے بیان جو جمعرات کے روز ان کی ویب سائیڈ پر جاری کیاگیا ہے جس میں کہاکہ سکیورٹی فورسس نے ’’ علاقے کی صفائی اپریشن پیو ما کی میں‘‘ دوبارہ شروع کیاہے۔

مذکورہ پوسٹ میں کیاگیا ہے کہ راکھین میں دو بدھسٹوں کی موت کی وجہہ سے پیدا ہوئی صورتحال کے سبب یہ کاروائی کی گئی ہے‘ ساحل کے کنارے دو بدھسٹوں کی نعشیں گلا کاٹے حالات میں ملے ہیں۔

اسی روز بدھسٹ اقلیت کے دیگر دولوگوں پر بھی حملہ کیا جو مچھلی پکڑنے کے لئے ساحل کے کنارے بیٹھے تھے اور حملہ آور’’ بنگالی زبان میں بات کررہے تھے‘‘ مگر وہ بچ کر نکل گئے اور مقامی اسپتال میں ان کا علاج کیاگیا۔پوسٹ میں کہاگیا ہے کہ انتظامیہ یہ نہیں جانتا کہ حملہ کرنے والے کون تھے۔

میانمار نے روہنگیائیوں کو شہری موقف فراہم نہی ں کیا ہے اور ان کے ساتھ بنگالی حوالہ جوڑ دیاجاتا ہے اور فرضی طور پر بنگلہ دیش سے ملک میں داخل ہوئے پناہ گزین قراردیتا ہے۔

شمالی راکھین میں تناؤ بھاری ہے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ دوبارہ روہنگیائیوں کی واپسی کا کام شروع کرے مگر بنگلہ دیش میں رہنے والے روہنگیائی اس کو مسترد کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ شہریت او رحفاظت کی ضمانت کے بغیر ان وہ واپسی نہیں کریں گے۔

راکھین میں روہنگیائیوں کے ساتھ اب بھی زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے ور عورتوں‘ مرد اور بچوں سے بھری کشتیاں ریاست سے باہر جانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں