دنیا فانی ہے

وہی تو ہے جس نے نرم کردیا ہے تمہارے لئے زمین کو پس (اطمینان سے) چلو اس کے راستوں پر اور کھاؤ اس کے (دیئے ہوئے) رزق سے اور اسی کی طرف تم کو (قبروں سے) اٹھ کر جانا ہے۔ (سورۃ الملک۔۱۵)
فرماں بردار اونٹنی جس پر آسانی اور سہولت سے سواری کی جاسکے، عرب اسے ’’نَاقَۃٌ ذَلُوْلٌ‘‘ کہتے ہیں۔ اس آیت میں ذلول کو زمین کی صفت ذکر کیا گیا ہے، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زمین کو اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس پر آسانی اور سہولت کے ساتھ چل سکتا ہے، نہ تو ساری سخت پتھریلی ہے اور نہ دلدل ہے کہ اس پر چلنا دشوار ہو جائے۔ اس خالق کریم نے ان گنت مصلحتوں کے باعث زمین پر جگہ جگہ پہاڑوں کے فلک بوس سلسلے کھڑے کردیئے ہیں، تاہم ان کو بھی ناقابل عبور نہیں رہنے دیا۔ مناسب مسافتوں پر ایسے درے بنادیئے ہیں، جہاں سے انسانوں کے قافلے اور مویشیوں کے گلے آسانی سے گزر سکتے ہیں۔

صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ اس رب کریم نے ہر جگہ تمہارے رزق کا سامان بھی مہیا کردیا ہے، جہاں سے گزروگے اس کے لطف و کرم کا وسیع دسترخوان بچھا ہوا پاؤ گے، جس میں کھانے کی رنگ برنگی ذائقہ دار چیزیں سجی ہوں گی۔ جب بلند پہاڑوں پر تم جاتے ہو تو وہاں میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے تمہاری تشنہ لبی کا مداوا کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اگر وہاں تمھیں کنواں کھود کر پانی نکالنا پڑتا تو تمھیں دن میں تارے نظر آنے لگتے۔ الغرض اس کے لطف و کرم کے بغیر تم جادۂ زیست پر ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتے۔ یاد رکھو! یہ دنیا اور اس کا مال و متاع سب فانی ہے، ایک روز آئے گا اور یقیناً آئے گا، جب تم اللہ تعالی کے حضؤر میں پیش کئے جاؤگے اور تم سے حساب لیا جائے گیا، کیا تم نے اس روز کے لئے کچھ تیاری کرلی ہے؟۔