دل کی آشنائی

 

اپنے عہد طالب علمی کی وہ خوشگوار شام ،میں کبھی نہیں بھولوں گا جب دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کے صدر دروازے پر میں کھڑا تھا لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا ، دیہاتی میرے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور ہانپتے ہوئے دریافت کیا ’’مبارکپور میں کوئی بہت بڑا مدرسہ ہے اُس کا نام میرے ذہن سے اُتر گیا ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ بریلی کے جن مولانا صاحب نے تیرہ سو برس کے اسلام کا چہرہ باطل پرستوں کے اڑائے ہوئے گرد و غبار سے صاف کیا ہے وہ مدرسہ اُنہی کے مسلک کا حامی ہے‘‘ ۔ بریلی کا ان ہی مولانا صاحب کی کیف بار زندگی کا ایک واقعہ پیش ہے۔ ( علامہ ارشد القادری )

پرانے شہر بریلی کے ایک محلے میں آج صبح ہی سے ہرطرف چہل پہل تھی ۔ دلوں کی سرزمین پر عشق رسالت کا کیف و سرور کالی گھٹاؤں کی طرف برس رہا تھا ۔ چلتے چلے ایک راہگیر نے دریافت کیا ’’آج یہاں کیا ہونے والا ہے ؟ ‘‘ کسی نے جواب دیا ۔ دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیت دین کے مجدّد ، اہل سُنت کے امام ، عشق رسالت کے گنج گرانمایہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی آج یہاں تشریف لانے والے ہیں انہی کے خیرمقدم میں یہ سارا اہتمام ہورہا ہے ۔
بارگاہِ رب العزت اور شان رسالت میں اس کا ذوق احترام و ادب اس درجہ لطیف ہے کہ متکلم کے قصد و نیت سے قطع نظر وہ الفاظ کی نوک پلک پر بھی وہ شرعی تعزیرات کا پہرہ اُٹھاتا ہے ۔ ہوائے نفس کی دبیز گرد کے نیچے چُھپ جانے والی شاہراہ حق کو اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ اُس نے روشن کردیا ہے کہ اب اہل عرفان کی دنیا بیک زبان اسے ’’مُجّدد‘‘ کہتی ہے ۔ وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا سخنور بھی ہے لیکن آج تک کبھی اُس کی زبان اہل دنیا کی منقبت سے آلودہ نہیں ہوئی وہ بھری کائنات میں صرف اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی مدح سرائی سے شاد کام رہتا ہے ۔
وہ اپنے کریم آقا کی گدائی پر دونوں جہاں کا اعزاز نثار کرچکا ہے ۔ دنیا کے ارباب ریاست صرف اس آرزو میں بارہا اس کی چوکھٹ تک آئے کہ اپنے حضور میں صرف باریاب ہونے کی اجازت دے دے لیکن زمانہ شاہد ہے کہ ہربار اُنہیں شکستہ خاطر ہوکر واپس لوٹنا پڑا ۔
اب تم ہی بتاؤ کہ اپنے وقت کی اتنی عظیم و برتر شخصیت جس کی دینی و علمی شوکتوں کے پرچم عرب و عجم میں لہرا رہے ہیں اور جسے عشق مصطفی کی وارفتگی نے دونوں جہان سے چھین لیا ہے ۔ آج اگر وہ یہاں قدم رنجہ فرمانے کے لئے مائل بہ کرم ہے تو کیا یہ ہمارے نصیبے کی معراج نہیں ہے ؟ پھر اگر ہم اس کے خیرمقدم کے لئے اپنے دلوں کا فرش بچھارہے ہیں تو اپنے جذبۂ شوق کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار موسم اور کیا ہوسکتا ہے ۔
امام اہلسنت کی سواری کے لے پالکی دروازے پر لگادی گئی تھی ۔ سینکڑوں مشتاقانِ دید انتظار میں کھڑے تھے ۔ وضو سے فارغ ہوکر کپڑے زیب تن فرمائے۔ عمامہ باندھا اور عالمانہ وقار کے ساتھ باہر تشریف لائے ۔ چہرۂ انور سے فضل و تقویٰ کی کرن پھوٹ رہی تھی ۔ شب بیدار آنکھوں سے فرشتوں کا تقدس برس رہا تھا ۔ طلعت جمال کی دل کشی سے مجمع پر ایک رقت انگیز بے خودی کاعالم طاری تھا۔ گویا پروانوں کے ہجوم میں ایک شمع فروزاں مسکرا رہی تھی اور عندلیبانِ شوق کی انجمن میں ایک گلِ رعنا کِھلا ہوا تھا ۔ بڑی مشکل سے سواری تک پہنچنے کا موقع ملا۔
پابوسی کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد کہاروں نے پالکی اُٹھائی آگے پیچھے داہنے بائیں نیازمندوں کی بھیڑ ہمراہ چل رہی تھی ۔ کہار پالکی لے کر تھوڑی ہی دُور چلے تھے کہ امام اہلسنت نے آواز دی ۔ ’’پالکی روک دو‘‘۔
حکم کے مطابق پالکی رکھ دی گئی ۔ ہمراہ چلنے والا مجمع بھی وہیں رُک گیا۔ اضطراب کی حالت میں باہر تشریف لائے ، کہاروں کو اپنے قریب بُلایا اور بھرائی ہوئی آواز میں دریافت کیا ۔ ’’آپ لوگوں میں کوئی آلِ رَسُول تو نہیں؟‘‘
’’اپنے جدِّ اعلیٰ کا واسطہ سچ بتائیے ، میرے ایمان کا ذوقِ لطیف تنِ جاناں کی خوشبو محسوس کررہا ہے ‘‘۔ اس سوال پر اچانک ان میں سے ایک شخص کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا ۔ پیشانی پر غیرت و پشیمانی کی لکیریں اُبھر آئیں۔ بے نوائی آشفتہ حالی اور گردش ایّام کے ہاتھوں ایک پامال زندگی کے آثار اس کے انگ انگ سے آشکار تھے ۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد نظریں جھکائے دبی زبان سے کہا ’’مزدور سے کام لیا جاتا ہے ذات پات نہیں پوچھا جاتا ۔ آہ! آپ نے میرے جدِّ اعلیٰ کا واسطہ دے کر میری زندگی کا ایک سربستہ راز فاش کردیا۔ سمجھ لیجئے کہ میں اسی چمن کا ایک مُرجھایا ہوا پُھول ہوں جس کی خوشبو سے آپ کی مشامِ جاں معطر ہے ۔ رگوں کا خون نہیں بدل سکتا ۔ اس لیے آلِ رسول ہونے سے انکار نہیں ہے لیکن اپنی خانماں برباد زندگی کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔
چند مہینے سے آپ کے اس شہر میں آیا ہوا ہوں کوئی ہُنر نہیں جانتا کہ اُسے اپنا ذریعہ معاش بناؤں ۔ پالکی اُٹھانے والوں سے رابطہ قائم کرلیا ہے ۔ ہر روز سویرے اُن کے جُھنڈ میں آکر بیٹھ جاتا ہوں اور شام کو اپنے حصّے کی مزدوری لے کر اپنے بال بچوں میں لوٹ جاتا ہوں ۔
ابھی اس کی بات تمام بھی نہ ہوپائی تھی کہ لوگوں نے پہلی بار تاریخ کا یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ عالم اسلام کے ایک مقتدر امام کی دستار اس کے قدموں پر رکھی ہوئی تھی اور وہ برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ پُھوٹ پھوٹ کر التجا کررہا تھا ’’معزز شہزادے ! میری گُستاخی معاف کردو ، لاعلمی میں یہ خطا سرزد ہوگئی ہے ۔ ہائے غضب ہوگیا جن کے کفشِ پا کا تاج میرے سر کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔ ان کے کاندھے پر میں نے سواری کی ۔ قیامت کے دن اگر کہیں سرکار نے پوچھ لیا کہ احمد رضا ! کیا میرے فرزندوں کا دوشِ نازنین اسی لیے تھا کہ وہ تیری سواری کا بوجھ اُٹھائیں تو میں کیا جواب دوں گا ۔ اُس وقت بھرے میدانِ حشر میں میرے ناموسِ عشق کی کتنی بڑی رسوائی ہوگی ؟‘‘۔
آہ ! اس ہولناک تصوّر سے کلیجہ شق ہوا جارہا ہے ۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جس طرح ایک عاشق دلگیر روٹھے ہوئے محبوب کو مناتا ہے بالکل اسی انداز میں وقت کا ایک عظیم المرتبت امام اس کی منّت و سماجت کرتا رہا اور لوگ پھٹی آنکھوں سے عشق کی نازبرداریوں کا یہ رقت انگیز تماشہ دیکھتے رہے ۔ یہاں تک کہ کئی بار زبان سے معاف کردینے کا اقرار کرالینے کے بعد امام اہلسنت نے پھر اپنی ایک آخری التجائے شوق پیش کی ۔ چونکہ راہِ عشق میں خونِ جگر سے زیادہ وجاہت و ناموس کی قربانی عزیز ہے ۔ اس لیے لاشعوری کی اس تقصیر کا کفارہ جب ہی ادا ہوگا کہ اب تم پالکی میں بیٹھو اور میں اسے اپنے کاندھے پر اُٹھاؤں۔
اس التجا پر جذبات کے تلاطم سے لوگوں کے دل ہل گئے ۔ وفوراثر سے فضا میں چیخیں بلند ہوگئیں۔ ہزار انکار کے باوجود آخر سیّد زادہ کو عشقِ جنوں خیز کی ضد پوری کرنی پڑتی ۔
آہ! وہ منظر کتنا رقت انگیز اور دل گداز تھا جب اہلسنت کا جلیل القدر امام کہاروں کی قطار سے لگ کر اپنے علم و فضل ، جُبّہ و دستار اور اپنی عالمگیر شہرت کا سارا اعزاز خوشنودی ٔ حبیب ؐ کے لئے ایک گمنام مزدور کے قدموں پر نثار کررہا تھا ۔
شوکتِ عشق کا یہ ایمان افروز نظارہ دیکھ کر پتھروں کے دِل پگھل گئے ۔ کدورتوں کا غبار چھٹ گیا ، غفلتوں کی آنکھ کھل گئی اور دُشمنوں کو بھی مان لینا پڑا کہ آلِ رسول کے ساتھ جس کے دل کی عقیدت و اخلاص کا یہ عالم ہے ، خود رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اس کی وارفتگی کا اندازہ کون لگاسکتا ہے ۔ اہل انصاف کو اس حقیقت کے اعتراف میں اب کوئی تامل نہیں ہوسکتا کہ گستاخانِ رسول کے خلاف احمدرضا کی برہمی قطعاً حق بجانب ہے ۔ ؎؎
ہے ان کے عطر بوئے گریباں سے مست گل
گل سے چمن چمن سے صبا اور صبا سے ہم