دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت

سید زبیر ہاشمی استاد جامعہ نظامیہ

جب کسی نبی سے کوئی فعل (کام) ایسا صادر ہوجائے جس سے عقل ِ انسانی متحیر ہو تو اس کو معجزہ کہتے ہیں، ہمارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترسٹھ (۶۳) سالہ زندگی کا ہر لمحہ معجزہ ہی معجزہ ہے، یعنی صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ بے حساب اَن گنت باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جب کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک دست ِاقدس سے مَس یعنی چھولئے تو اُس کی حالت بدل گئی، دست ِنبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کسی بیمار کو لگ گیا تو نہ صرف وہ شفا یاب ہوا بلکہ تندرست بھی ہوگیا اور اس برکت کی تاثیر وہ اپنے قلب میں محسوس کرتارہا، کسی کے سر کو مبارک ہاتھ لگ گیا تو عمر بھر بال کالے ہی رہے، کسی لاغر بکری کے تھن سے دست اقدس مس(چھوگیا) ہوگیا تو اُس بکری کے تھن میں بے حساب دودھ آگیااور زخم کھاکر ٹوٹی ہوئی پنڈلی پر مبارک ہاتھ لگ گیا تو وہ پنڈلی شفاء یابی کے ساتھ ساتھ جڑگئی۔

چنانچہ آج اُن بے شمار معجزات اور شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جو کہ دست اقدس کی برکت سے صادر ہوئے ہیں اُن میں سے صرف تین (۳) معجزات تحریر کئے جاتے ہیں ملاحظہ ہو:

{۱}آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوزید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے تقریباً سو(۱۰۰) سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس کی آپ بیتی آپ رضی اللہ عنہ ہی سناتے ہیں ملاحظہ ہو: ’’ایک مرتبہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی: الٰہی ! اِسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کردے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے تقریباً سو(۱۰۰) سال سے زائد عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ ہی رہے، ان کاچہرہ آخر وقت تک بھی صاف اور روشن رہا‘‘۔ (احمد بن حنبل)

{۲}سفر ہجرت کا موقع تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور اُن سے فرمانے لگے کہ کھانے کے لئے گوشت یا کھجوریں خریدنا ہے، موجود ہیں تو اُن کے پاس د ونوں چیزیں بھی نہ ملی، پھر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اُن کے خیمے میں ایک بکری پر پڑی جو دبلی، لاغر اور کمزور تھی، دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: یہ بکری کمزور و لاغر ہونے کی وجہ سے دیگر بکریوں سے پیچھے رہ گئی اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اجازت ہوتو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا: دودھ تو یہ دیتی نہیں،

اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہوسکتا؟ پس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوہا، آگے ارشاد فرماتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس بکری کو منگوائے اور بسم اللہ کہ کر اس کے تھنوں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور ام معبد کے لئے ان کی بکریوں کی دعا دی۔ اُس بکری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے دونوں ٹانگیں پھیلادیں، بے حساب دودھ اُس بکری نے دی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا برتن طلب کیا جو سب لوگوں کے لئے سیراب ہوجائے، اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، پھر ام معبد رضی اللہ عنہا کو پلایا، وہ بھی سیراب ہوگئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو پلائے یہاں تک کہ سب صحابہ بھی سیراب ہوگئے، سب کے سیراب ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس بکری کا دودھ نوش فرمائے، پھر دوسری بار دودھ دوہ کر برتن بھر دیئے اور اُسے بطور نشان ام معبد رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑا اور پھر سب وہاں سے چل دیئے‘‘۔

کچھ لمحات بھی گزرے نہیں تھے کہ حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر آئے، انہوں نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ جواب میں حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا واقعہ بیان کیا، فوراً وہ (حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر) کہنے لگے کہ وہی تو قریش کے سردارہیں جن کا خوب چرچا ہورہا ہے۔ میں نے بھی ارادہ کرلیا ہے کہ اُن کے ساتھ میں بھی رہوں، فوراً دونوں میاں بیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔ (حاکم)

{۳}’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابورافع یہودی کو جہنم رسید کرکے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گرگئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ٹانگ پھیلاؤ۔ وہ صحابی رسول فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اپنا پیر پھیلادیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا دست ِشفاء پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِشفاء کے پھیرتے ہی میری پنڈلی ایسی درست ہوگئی جیسے کہ وہ کبھی ٹوٹی ہی نہ تھی‘‘ (بخاری شریف)
zubairhashmi7@gmail.com