دستور اور حکمراں پارٹی

دستورِ ہند کی موجودہ بنیادوں کو ہلاکر نئے تجربات کرنے کا حوصلے رکھنے والی مرکز کی مودی حکومت کے قائدین  نئے بیانات دے کر عوام اور اپوزیشن  کو اپنے دیئے گئے بیانات پر قائل کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ راجیہ سبھا میں وزیراعظم مودی نے اس دستور کے حوالے سے بیان دیا کہ دستورِ ہند کے تقدس کو برقرار رکھا جانا چاہئے اور اس کا پیام آنے والی نسلوں تک پہونچنا چاہئے۔ لوک سبھا میں دستور اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر خراج پیش کرنے کے دوران جو واقعات رونما ہوئے تھے، راجیہ سبھا میں اس کا اعادہ نہیں ہوا۔ دستور پر وزیراعظم مودی اور ان کی ٹیم کی رائے کا جواب دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں جب اپوزیشن لیڈر نائب صدر کانگریس راہول گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت، ہندوستانیوں کے دستوری حقوق کو چھین لینے کی کوشش کررہی ہے۔ ہمارے ملک کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے لیکن مودی حکومت کے ایک وزیر وی کے سنگھ جب دلت بچہ کا تقابل ’’کُتّے‘‘ سے کرتے ہیں تو وہ دانستہ طور پر دستور ہند کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔

دستور میں دلتوں کے لئے جو صراحت آئی ہے وہ وی کے سنگھ کے لئے توجہ طلب ہے، پھر بھی مودی حکومت میں انہیں وزیر کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان میں راہول گاندھی کی جانب سے وزیراعظم کو دیا گیا ترکی بہ ترکی جواب ’’کسی نے سنا اور کسی نے نہیں سنا‘‘ کی طرح رہا، کیونکہ جس وقت جب راہول گاندھی لوک سبھا میں بیان دے رہے تھے، اسی وقت راجیہ سبھا میں وزیراعظم مودی، بزرگ پارلیمنٹیرینس کے سامنے دستور ہند پر اپنی رائے پیش کررہے تھے۔ ایسے میں الیکٹرانک میڈیا نے راہول گاندھی کی تقریر پر مودی کے بیان کو ترجیح دی۔ اس سے حکومت کے خلاف حقیقت پسندانہ رائے کو پس پردہ کردیا گیا۔ دستور ہند اور سکیولرازم ہندوستان کی شان ہیں۔ بیرون ہند ساری دنیا میں ہندوستان کی آواز کو ایک اعلیٰ مقام اس لئے حاصل ہے کیونکہ یہاں دستور اور جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ ان موضوعات پر جب اپوزیشن اور حکمراں طبقہ باہمی ٹکراؤ کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ بدبختانہ واقعہ قرار پاتا ہے۔ دستور ہند کے مطابق ہندوستان میں سکیولرازم کی جڑیں مضبوط و مستحکم ہونی چاہئے لیکن سکیولرازم پر اُنگلی اٹھانے والے اپنی مخالف سکیولرازم رائے کے ساتھ دستور کے تقدس کو بھی پامال کردیئے ہیں، جنہیں نظرانداز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کا پارلیمنٹ کو حق نہیں ہے۔ ہندوستان میں سکیولرازم کے تصور کو بھی مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ دستور ہند میں سکیولرازم کے حق میں جو عہد کیا گیا ہے، وہ داخلی جدوجہد سے حاصل ہونے والے نتائج کا آئینہ ہے۔

1908ء میں گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ہندوستان کو ایک قومی ملک کی حد تک محدود رکھا نہیں جاسکتا کیونکہ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں کہیں بھی ایک قومی حصہ نہیں ہے۔ دستور سازی کے دوران جن شخصیتوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا تھا، اس کی وجہ سے آج ہمارے دستور کے اقدار بلند و بالاتر ہیں۔ جب ہندوستان کو ایک سکیولر ملک قرار دیا گیا ہے تو مودی زیرقیادت حکومت کو اس سکیولر ملک کے تانے بانے کو تار تار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ ہندوستان کسی ایک مذہب یا قوم کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ملک ہمارے دستور کے مطابق ہر ایک کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے۔ دستور کے آرٹیکل 25 میں تمام شہریوں کو ضمانت دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گذارنے کے لئے آزاد ہیں۔ دستور ہند ایک قانونی اور سماجی دستاویز ہے، اس کا احترام کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے مگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بعض طاقتوں نے اپنی من مانی کا مظاہرہ شروع کیا ہے، وہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک خطرناک ماحول پیدا کرے گا۔ دستور سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ مودی حکومت میں اگردستور کے تعلق سے عوام کے اندر الجھن پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو ایسی سیاسی طاقتوں سے چوکس و چوکنا رہنا سکیولر عوام کی ذمہ داری ہے۔ ہندوستانی عوام کے لبرل اور جمہوری نصب العین کو بھی ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں جب نفرت کی لہر پر اُڑ رہی ہیں تو یہ ملک کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔