دستوری حددو اور ذمہ داریاں

اس شخص کو لاؤ کہ میں سلطان بنادوں
وہ شخص جو کل تک یہاں بے مول رہا ہے
دستوری حددو اور ذمہ داریاں
ہندوستان کے جلیل القدر عہدوں پر دستور ہند کی پاسداری کرنے والی شخصیتوں کو مقرر کیا جاتا ہے۔ ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے ایک بہتر انتظامیہ، عدلیہ اور تمام اداروں کو مل بیٹھ کر غوروفکر کرنی ہوتی ہے لیکن مرکز میں جب سے آر ایس ایس مکتب فکر کو غلبہ حاصل ہوا ہے، دستوری ادارے بھی آر ایس ایس کی فکری ذہنیت کے لوگوں سے بھردیئے جارہے ہیں۔ صدرجمہوریہ اور نائب صدرجمہوریہ کا تعلق جب ایک ہی مکتب فکر سے ہو تو پھر دستورہند کی پاسداری کا سوال نازک رخ اختیار کرتا جائے گا۔ صدرجمہوریہ کی حیثیت سے آر ایس ایس کے دیرینہ کارکن و بی جے پی کے لیڈر رامناتھ کووند کے انتخاب کے بعد اب نائب صدرجمہوریہ کے لئے اس مکتب سے تعلق رکھنے والے لیڈر کو فائز کردینا اس ملک کے دستوری نظام، عوام کے اعتبار اور بہتر حالات کی ضمانت ملنے کی باتیں بھی جھکولے کھا رہی ہوتی ہیں۔ جب سے ملک پر فرقہ پرستوں کا غلبہ بڑھتا گیا ہے دیگر شہریوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس قوی ہوگیا ہے۔ ملک کے تمام ادارے اپنے اپنے دائروں میں رہ کر کام نہیں کررہے ہیں۔ اس وقت ملک کو غربت، دہشت گردی، انتہاء پسندی اور انتشار کے علاوہ سرحدی کشیدگی جیسی فضاء کا سامنا ہے۔ کل تک ملک کا شہری پورے فخر سے ملک کے دستوری عہدوں پر نظریں دوڑاتا تھا ان پارلیمانی و دستوری اداروں کو طاقتور کہتا اور سمجھتا تھا کہ صدرجمہوریہ سمیت تمام آئینی ادارے عوام کی بہتر زندگی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن اب دستوری عہدوں پر ایک خاص فکر و نظریہ کی حامل شخصیتوں کو فائز کیا گیا ہے تو آئندہ پانچ سال تک اس ملک کے آئینی حدود کی پاسداری کس طرح کی جائے گی یہ غور طلب امر ہے۔ سال 2017ء تا 2022ء ملک کے دستوری عہدوں پر فائز شخصیتوں کو ایک ہی خاندان کے فرد قرار دیا جارہا ہے اور روایات کے مطابق دو اعلیٰ عہدوں پر ایک ہی سوچ و فکر کی حامل شخصیتوں کو فائز کیا جارہا ہے۔ جس نظام کو عوام کا اعتبار حاصل ہوتا ہے وہ ملک کی ترقی کی راہوں کو وسعت دیتا ہے مگر اب ہندوستان کی نصف آبادی کا موجودہ حکمرانوں اور دستوری اداروں پر اعتبار نہ ہو تو پھر سماجی زندگی بے اطمینانی کا شکار رہے گی۔ اس وقت بالخصوص ایک گروپ فرقہ پرستی کے جبر و تحریص کے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لارہا ہے تو پارلیمانی قوت اس میں جانے والوں کے کردار کی پختگی، اخلاقی بلندی، امانت و دیانت اور حب الوطنی پر عام لوگوں کے اعتماد پر ٹھیس پہنچنے کا امکان بڑھتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے این ڈی اے اور دیگر پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جو نائب صدارتی امیدوار وینکیا نائیڈو کی تائید کررہے ہیں، کہاکہ اس ملک کے اعلیٰ عہدوں پر آئندہ 5 سال تک ایک ہی نظریات کی حامل شخصیتیں فائز رہیں گی جن کا پس منظر بی جے پی سے وابستہ ہے۔ یہ پہلا موقع ہیکہ اس طرح کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک کے دو جلیل القدر عہدوں پر زعفرانی سوچ اور نظریات کے حامل افراد فائز ہیں اور اب قوی امکان ہیکہ اس ملک کو بہترین خدمت دی جائے گی۔ جن مکتب خاص سے تعلق رکھنے والے لوگ اقتدار سنبھالتے ہیں تو سوال یہ اٹھے گا کہ یہ لوگ اپنی پالیسیوں اور عمل کے ذریعہ عوام کے ساتھ انصاف کس طرح کریں گے۔ جس معاشرہ میں اگر قانون نہ ہو تو فیصلہ کیسے ہوگا جو سوال اٹھتا ہے وہیں اگر قانون ہے تو انصاف کیسے کیا جائے گا اور قانون و انصاف دونوں بھی ہوتے ہیں مگر ایک سسٹم نہ ہو تو ایسے میں عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں فرق دکھائی دے گا۔ ان دنوں ہندوستانی عوام کی بڑی اقلیت کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سبھی پر عیاں ہے۔ بہرحال اگر اس ملک کے سیکولر کردار اور دستوری اصولوں کا اعتبار برقرار رکھا جائے تو یہ ایک بہتر بات ہوگی۔ صدرجمہوریہ اور نائب صدرجمہوریہ کے عہدوں پر فائز شخصیتوں کے بارے میں بحث کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے خلاف بات کی جارہی ہے بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو ہر ایک کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
چین بالادستی کیلئے کوشاں
چین کے ساتھ ہندوستان کی نرمی سے سرحدوں پر بالادستی کا توازن بگڑ گیا ہے۔ ڈوکلم تنازعہ کا باہمی قابل قبول حل تلاش کرنے کیلئے بھوٹان کی مدد لینے کیلئے کوشاں حکومت ہند نے سفارتی چیانلوں کے ذریعہ چین سے مذاکرات کو جاری رکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ سرحد پر ہندوستانی فوج کی تعداد گھٹانے سے متعلق چین کے ادعا کے بعد مودی حکومت اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ایک کمزور علامت ہوگی۔ بلاشبہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کیلئے سفارتی ڈپلومیسی پر عمل کرنا ضروری تو ہے مگر چین کی بڑھتی بالادستی پر مودی حکومت کا ردعمل افسوسناک ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہیکہ ڈوکلام سرحد پر جہاں پہلے ہندوستان کے 400 فوجی تھے، اب چین کے دباؤ کے بعد سپاہیوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔ حکومت ہند نے چین کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ہے۔ سچ بات تو یہ ہیکہ مرکز کی مودی حکومت نے چین کے معاملہ میں نرمی اختیار کرلی ہے۔ چین دھمکیوں پہ دھمکیاں دیتا آرہا ہے بلکہ تبت اور سکم سے متعلق اس کے ادعاجات پر وہ قائم ہے۔ ہندوستان کو اس غلط فہمی میں نہ رہنے کا بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ چین کی طاقت پر غالب آجائے گا۔ پیپلز لبریشن آرمی کی 90 سال کی تاریخ نے ثابت کردیا ہیکہ چین کی طاقت کو کوئی نہیں للکار سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہیکہ آیا حکومت ہند نے چین کے معاملہ میں تبت کے حوالے سے کوئی غلطی تو نہیں کی ہے۔ سرحد پر دونوں جانب کی بڑھتی کشیدگی کے بعد ملک کے اندر چین پر ہندوستان کی پالیسیوں پر سوال اٹھائے جارہے ہیں تو مودی حکومت کو اپنی کارکردگی کا فوری جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فوجی طاقت میں ہندوستان بھی چین سے پیچھے نہیں ہے بلکہ گذشتہ 3 دہائیوں میں ہند۔ چین سرحد پر اس طرح کی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی تھی اب کی صورتحال تشویشناک ہے۔ لہٰذا مودی حکومت کو اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ چین کے معاملہ میں غافل نہ رہنے کی ضرورت ہے۔