دانتوں کے ایکسرے سے دماغ کے کینسر کا خطرہ

 

جن لوگوں نے ایک سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ دانتوں کا ایکسرے کروایا ہو ۔ انہیں عام قسم کا دماغ کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ دوگنا ہوجاتا ہے ۔ ایک نئی تحقیق کے بموجب اس لئے دانتوں کا ایکسرے جہاں تک ممکن ہوسکے کم کروانا چاہئے ۔ ایل یونیورسٹی کے اسکول برائے ادویہ ( امریکہ ) کے محققین کی ایک ٹیم نے پتہ چلایا ہے کہ جن لوگوں نے ایک سال کے اندر ایک سے زیادہ مرتبہ دانتوں کا ایکسرے کروایا ہے انہیں ان ا فراد کی بہ نسبت جنہوں نے دانتوں کا ایکسرے نہیں کروایا ہو دماغ کا عام قسم کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ 1.4 سے 1.9 گنا زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کو منینگیوما ہوسکتا ہے جو ایک عام لیکن معذور کردینے کی طاقت رکھنے والی دماغی رسولی ہوتی ہے جو کینسر زدہ نہیں ہوتی ۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دانتوں کے ایکسرے کا ممکن حد تک کم سے کم استعمال کے بارے میں بیداری شعور پیدا کیا جانا چاہئے ۔ سب سے بڑی محقق ایلزبتھ کلان نے جو ایل یونیورسٹی میں پروفیسر اور برمنگھم اور بوسٹن کے خواتین کے ہسپتالوں میں اعصاب کی سرجن ہیں کہا کہ لوگوں کو ان انکشافات پر حد سے زیادہ ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہئے ۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ دہشت زدہ نہ ہوں ۔ دانتوں کے ڈاکٹر سے مشورہ لینا بند نہ کریں ۔ محققین کے بموجب دانتوں کے ایکسرے بہت عام مصنوعی ذریعہ ہیں جس سے افراد کا عام طور پر واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔ بنیادی ماحولیاتی خطرے کا عنصر میننگیوما پیدا ہونے کا ہے ۔ یہ رسولیاں کھوپڑی میں کنارے کنارے اپنی جسامت میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ یہ انتہائی سست رفتار سے فروغ پاتی ہیں ۔ لیکن ان سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اگر ان کا انسانی دماغ پر دباؤ پڑے تو وہ مہلک ثابت ہوسکتی ہے ۔ اپنی تحقیق میں جو رسالہ کینسر میں شائع ہوئی ہے محققین کی ٹیم نے سر کے دو قسم کے ایکسرے کا جائزہ لیا جنہیں بیٹیونگ اور پینوریکس کہا جاتا ہے ۔
امریکی ماہرین نے شکاگو میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے نتائج اخذ کرتے ہوئے کہا کہ شہروں میں رہائش پذیر بچے دیہاتوں میں رہائش پذیر بچوں کی نسبت زیادہ غذائی سمیت کا شکار ہوتے ہیں ۔ تحقیق کے سربراہ رچی گپتا کی سربراہی میں ماہرین نے بتایا کہ ہمیں تحقیق سے پہلی بار یہ معلوم ہوا ہے کہ آبادی میں سے بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائی سمیت میں مبتلا ہوتی ہے۔ ماہرین نے تحقیق کیلئے 38000 بچوں کو جن کی عمریں 18 سال یا اس سے کم ہیں کہ اس تحقیق کا حصہ بنایا جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ شہروں میں مقیم بچوں میں غذائی سمیت کی شرح 9.8 فیصد ہے جو کہ دیہاتوں میں مقیم بچوں میں غذائی سمیت کی شرح 6.2 فیصد سے زیادہ ہے۔ …سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ 2 پر
…سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ اول سے …
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماحول کے بھی غذائی سمیت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ماہرین نے ماحول کے ساتھ بہتر روابط کو اس غذائی سمیت کو روکنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہروں میں مقیم بچوں میں مونگ پھلی کے استعمال سے 2.8 فیصد تک الرجی پیدا ہوئی جبکہ دیہاتوں میں مقیم بچوں میں اس کی شرح 1.3 فیصد ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سمندری شیل فش کے استعمال میں اضافے سے بھی شہروں مقیم بچوں میں دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کی نسبت زیادہ غذائی سمیت پائی جاتی ہے۔ غذائی سمیت صحت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مشکلات کا ایک ذریعہ ہے جو کہ بلڈ پریشر کے بڑھنے کے باعث موت کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے تنبیہ کی ہے چونکہ غذائی سمیت ایک خطرناک بیماری ہے تاہم بروقت علاج معالجہ سے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔