خون میں شوگر کی سطح کا پتہ چلانے والے کتے

کتوں کو ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کو خبردار کرنے کی تربیت دی جاسکتی ہے ، اگر ان کے خون میں شوگر کی سطحیں خطرناک حد تک کم ہوچکی ہوں ۔ محققین نے کہا کہ کتے قابل اعتماد پیشگی انتباہ دینے والے نظاموں کے طورپر تربیت دیئے جاسکتے ہیں ۔ جن کتوں کو ان کے مالکوں کو ہائپو گلیسیمیا کے بارے میں خبردار کرنے کی تربیت دی جاسکتی ہے ایک موثر طریقہ پیش کرسکتے ہیں تاکہ ذیابیطس کے مریضوں کے خون میں شوگر کی سطح کے کم ہوجانے کے بارے میں خبردار کرسکیں۔ ہائپو گلیسیمیا ایک طبی ہنگامی صورتحال ہے جس میں خون میں گلوکوز کی مقدار غیرمعمولی حد تک کم ہوجاتی ہے ۔
محققین کا خیال ہے کہ کتوں کو ان کی انتہائی حساس قوت مشامہ کی بنیاد پر اپنے مالک کے پسینہ یا سانس میں کیمیائی ہئیت ترکیبی میں تبدیلی کا سراغ لگانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ گلیسیمیا کنٹرول پر ردعمل ظاہر کرسکیں۔ اس تحقیق کی قیادت برسٹل یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم کررہے ہیں ۔
یہ تحقیق خاص طورپر گلیسیمیا کے بارے میں خبردار کرنے والے کتوں کے بارے میں ہے جو بالکل درست اور مستقل طورپر خون میں شوگر کی کم یا زیادہ سطح کا سراغ لگاسکتے ہیں۔ اپنے ٹارگیٹ کے دائرہ کار سے باہر بھی اپنے مالکوں کو اس کے بارے میں خبردار کرسکتے ہیں۔ اب تک 17 کتوں کو ایسی تربیت دی جاچکی ہے اور انھیں زیرنگرانی رکھا گیا ہے ۔ ان انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام 17 کتوں نے اپنے مالکوں کی بروقت ان کے خون میں شوگر کی سطحوں کے بارے میں خبردار کیا ۔ وقتاً فوقتاً خون میں شوگر کی سطحوں میںکمی اور بیشی کے بارے میں بھی خبردار کیا ۔ قابل لحاظ وسائل کے باوجود برقیاتی نظاموں میں پتہ لگانے والے نظاموں کی تیاری سے گلیسیمیا پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔ موجودہ آلات متعدد حدود رکھتے ہیں ۔
تحقیق کی قائد ڈاکٹر نکولا رونی نے کہا کہ یہ انکشاف اہم ہیں۔ وہ تربیت یافتہ کتوں کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہیں۔ ان سے گلیسیمیا کے بارے میں خبردار کرنے والے کتوں نے جو اپنے ذیابیطس کے مریض مالکوں کے ساتھ مقیم ہیں نمایاں اہمیت رکھتے ہیں ۔ جو لوگ اعلیٰ معیار زندگی رکھتے ہیں اور طویل مدتی حفظان صحت کے اخراجات کم کرسکتے ہیں۔ بعض کتوں کے مالکوں کا کہنا ہے کہ ان کے تربیت یافتہ کتے خون میں شوگر کی سطح کم یا زیادہ ہونے کی قبل از وقت خبر دیتے ہیں۔ رونی نے کہاکہ کتے اس تحقیق کے انکشافات سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہورہے ہیں ۔ یہ تحقیق رسالہ پی ایل او سی ون میں شائع ہوچکی ہے ۔