خوش آمدید ماہ رمضان

ماہ رمضان المبارک کی آمدرحمتوں کی سوغات لاتی ہے،نیک دل ،پاکیزہ صفات ،متقی وپرہیزگاربندوں پر ماہ رمضان المبارک کی پہلی ساعت ہی سے انوارو رحمتوں کی بارش کا نزول شروع ہوجاتاہے۔وہ جونیکی کے راستہ پرگامزن رہتے ہوئے بشری تقاضوں سے کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں رمضان المبارک کی آمدنے ان کے قلوب کواپنی کوتاہیوں کے اعتراف کی توفیق بخشی اورپھر سچے دل سے توبہ واستغفارکرکے انہوں نے ماہ رمضان کی آمدکا استقبال کیا،پہلا عشرہ ایمانی کیفیات اوراعمال صالحہ کے ذوق وشوق میں بسرہوا،بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریزی کی لذت سے روح سرشاررہی،بندگی کے تقاضوں کے تکمیل میں سدراہ بننے والی نفسانی خواہشات کی اسیری سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے ایمان افروزعہدکی تجدیداوراس پردائمی قیام کے عزم صادق سے رجوع الی اللہ ہونے کی توفیق رفیق جن کی مساعدہو ئی ان کیلئے عشرہ ثانیہ کا آغاز بخشش ومغفرت کا مژدہ جانفزا سناتاہے۔اللہ سبحانہ وتعالی اوراسکے احکام کو بھول کرزندگی گزارنے والے بھی جب اپنی گزری زندگی پرندامت کے آنسو بہالیتے ہیں اوررمضان المبارک کے دونوں عشرے ان کی زندگی میں ایک نیا روحانی انقلاب لاتے ہیں تو حق سبحانہ وتعالی کی رحمت جوش میں آتی ہے اوروہ رحمن ورحیم ،شفیق ومہربان،رئوف ورحیم ذات اقدس اپنے بے پایاں فضل وکرم سے آخری عشرہ میں ان کو دوزخ سے آزادی کا پروانہ عطافرماتی ہے’’ہو شہر اولہ رحمۃ واوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار‘‘رمضان المبارک کا ابتدائی عشرہ رحمتوں کا ،درمیانی عشرہ بخشش ومغفرت کا اورآخری عشرہ نارجہنم میں آزادی کا ہے کے ارشادی نبوی(ﷺ)سے یہی کچھ مفہوم مستفادہوتاہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ’’جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتاہے جنت کے اورایک روایت کے مطابق رحمتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازوں کوبندکردیاجاتاہے اورشیاطین قیدکردئیے جاتے ہیں یعنی طاعت وعبادات میں انہماک ،ذکرواذکار،تلاوت قرآن کا اہتمام ،تراویح وتہجد،توبہ واستغفار،دعاء ومناجات کے اہتمام کی برکت سے دلوں میں انواروتجلیات کا کچھ ایسے نزول ہونے لگتاہے جواللہ کے بندوں کوتقوی شعاربناتاہے اورسعادتوں سے ہمکنارکرتاہے۔جسکی وجہ شیطانی طاقتیں کمزورہوجاتی ہیں ، رمضان المبارک کی مبارک ساعات کی برکتوں سے پورے ماحول میں ایمان افروزانقلاب محسوس کیا جاتاہے۔گویا ماہ رمضان المبارک روحانیت کا موسم بہارہے جس میں اللہ کے اکثربندوں کوخیر کی توفیق مل جاتی ہے،رمضان کی اہم عبادت روزہ ہے ،روزہ میں اللہ کے نیک بندے طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے ودیگرجائزخواہشات سے خود کو بازرکھتے ہیں ،یہ کوئی آسان کام نہیں ،روزہ کے سواانسان اگربھوکا پیاسا رہنا چاہے توظاہرہے دوچارگھنٹے کھانے پینے سے رکے رہنا انسان کی بس کی بات نہیں ،روزہ کی حالت میں اللہ سبحانہ کی خصوصی مددشامل حال رہتی ہے جس کی وجہ اتنی درازمدت تک بھوکا پیاسا رہنا آسان ہوجاتاہے۔روزہ انسان کی تربیت کا نہایت مؤثرذریعہ ہے،روزہ کی وجہ ضبط نفس کی صلاحیت پیداہوتی ہے،مہینہ بھراللہ سبحانہ کی رضا کیلئے جائزچیزوں سے جب بندہ اجتناب کرتاہے تو اس سے نفس کی کچھ ایسی تربیت ہوتی ہے جس کی وجہ گیارہ مہینوں میں اللہ سبحانہ کی مرضیات کوپیش نظررکھتے ہوئے اس کے احکام وفرائض کی تعمیل اورمنہیات یعنی اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے بازرہنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کی کامیابی کا رازاس بات میں ہے کہ وہ اللہ سبحانہ کے احکام کو خواہشات نفس پر غالب رکھے۔روزہ خواہشات نفس کوقابومیں رکھنے کا روحانی ہتھیارہے ، روزہ کی فرضیت کا مقصود طاعت وعبادت اور تقوی ہے۔اسلام کی تمام عبادتوں کا ماحصل بھی یہی ہے ،عبادات سے جہاں فرائض کی ادائیگی اور احکام اسلام کی بجاآوری ہوتی ہے وہیں نفس کی تربیت اورتزکیہ کا خاص ملکہ پیداہو تا ہے۔ماہ رمضان کی آمدکے ساتھ ہی روح پرورمناظردیکھنے کوملتے ہیں،مساجدآبادہوجاتی ہیں،مسلمان بکثرت تلاوت قرآن اورذکرواذکارکا اہتمام کرتے ہیں،،سحروافطار میں خاص طورپردعائیں قبول ہوتی ہیںاس لئے اہمیت کے ساتھ روزہ دار اس وقت اللہ کی جناب میں دعاء ومناجات کے ساتھ رجوع رہتے ہیں، تراویح وتہجدمیں قرآن پاک سنااورسنایا جاتاہے ،رمضان المبارک میں چونکہ عبادات کا اجروثواب بڑھادیاجاتاہے ،غیر فرض عبادات جیسے سنن ونوافل کی ادائیگی پراورمہینوں کے فرض کے برابرثواب دیاجاتاہے۔ایک فرض کا اداکرنا اورمہینوں کے سترفرض اداکرنے کا ثواب رکھتاہے،اس لئے مسلمان اس مہینہ میں زکوۃ اداکرتے ہیں جس کی وجہ غریبوں اورناداروں کی مددہوتی ہے ،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے اس مہینہ کی ایک تعریف ’’شہرالمواساۃ‘‘فرمائی ہے یعنی یہ مہینہ ہمدردی وغمخواری کاہے ۔ماہ رمضان میں رمضان کی خاص عبادت روزہ اوردیگرفرائض واحکام کی پابندی کے ساتھ مسلمان جذبہ خیر خواہی کے ساتھ زکوۃ اداکرتے ہوئے صدقہ وخیرات کرتے ہیں،مسلمان جانتے ہیں کہ زکوۃ کی ادائیگی ایک لازمی فریضہ ہے،یہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا کم سے کم درجہ ہے۔روزہ کی وجہ بھی جذبہ خیرخواہی کوجلاملتی ہے،روزہ رکھتے ہوئے بھوک وپیاس کا تجربہ ہوتاہے کہ وہ کس قدرآزمائش کی چیزہے،یہ احساس ایک دردمندروزہ دار کوغرباء ومساکین کے تعاون پر آمادہ کرتاہے۔الغرض ماہ رمضان میں قرب الہی کی منازل بہ آسانی طے ہوتی ہیں،ماہ رمضان المبارک کا مجاہدہ روحانی ترقی میں سریع التاثیرہے،احادیث پاک میں روزہ افطارکرانے کا بڑااجروثواب بتایا گیاہے،حدیث پاک میں ہے’’اللہ سبحانہ کی خوشنودی کیلئے روزہ دارکو افطار کرانے پر گناہوں کی بخشش اورنارجہنم سے نجات بخشی جاتی ہے اورروزہ افطارکرانے والے کوروزہ دار کے برابرثواب دیا جاتاہے‘‘(رواہ البیہقی)حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اکثرغریب ونادار تھے، اس خوشخبری پران کو اپنی ناداری کی وجہ محرومی کا احساس ہواتو آپ ﷺ جوغرباء ومساکین سے محبت رکھتے تھے ،غریبی ومسکنت کی زندگی پسندفرماتے تھے اوران کی فضیلت کی وجہ مساکین کے ساتھ آخرت میں حشرکی دعاء فرماتے،ظاہرہے آپ ﷺ غریبوں کے ماویٰ وملجا کیسے ان کو دکھی دیکھنا پسندفرماتے،آپ ﷺ نے نہ صرف ان کے احساس محرومی کا بلکہ قیامت تک آنے والے سارے غرباء ومساکین کے احساس محرومی کا یہ ارشاد فرماکر مداوا فرمایا کہ ’’اللہ سبحانہ یہ اجروثواب توپانی یا لسی کا ایک گھونٹ سے روزہ دارکو افطارکرانے پر عطافرماتے ہیں،ورنہ جوروزہ دارکوشکم سیرکردے اس کو اللہ سبحانہ میرے حوض (کوثر)سے ایسے سیراب فرمائیں گے کہ جنت میں جانے تک اس کو کبھی تشنگی کا احساس ہی نہیں ہوگا‘‘سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ اورانکے ارشادات پاک سے مسلمانوں کے تعلق خاطرکے مناظرماہ رمضان المبارک میں دیکھے جاتے ہیں،ہرایک روزہ داروں کو روزہ افطارکرانے میں سبقت کرتا ہوادکھائی دیتاہے،صاحب حیثیت افرادتوجی کھول کر افطارکا انتظام کرتے ہیں لیکن غریب وناداربھی اپنی حیثیت کے مطابق نیکی وبشارت حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔الحمدللہ مسلمانان عالم اللہ سبحانہ کی مرضیات ومنشاء کوپیش نظررکھتے ہوئے رمضان المبارک کا استقبال ضرورکرتے ہیں لیکن مزید اس میں اخلاص نیت کے ساتھ حسن ونکھار پیداکرنے کی ضرورت ہے،اس کے لئے چندباتوں کا خیال رکھنا اس استقبال کوانقلاب آفریں بناسکتاہے۔(۱)رمضان المبارک کے روزوں سے جوتربیت حاصل ہورہی ہے اس کو مؤقتی نہیں بلکہ دائمی بنالیا جائے،روزہ کی حالت میں جیسے رضاء الہی کیلئے جائزچیزوں سے دست کش ہونے کی ایک صلاحیت پیداہوئی ہے ا س کو آنے والے تمام مہینوں میں حرام چیزوں سے بچنے کی تربیت کا ذریعہ بنا لیا جائے،جائزچیزوں سے احتیاط انسان کوبہ آسانی ناجائزچیزوں سے اجتناب کا خوگربناتی ہے(۲) احکام شریعت کی پابندی پر مداومت ،ذکرواذکار،تلاوت قرآن اوردرودپاک کے ورد پر مواظبت بلاتخصیص ماہ رمضان ہمیشہ جاری وساری رہے (۳)مادیت کے غلبہ نے ایثاروقربانی کے جذبات کو سردکردیاہے ،خودغرضی وبے حسی نے بعض صاحب حیثیت افرادکودوسروں کا دردوکرب محسوس کرنے سے محروم کررکھاہے،بعض تووہ بھی ہیں جوحسن سلوک تو کیا کرتے اہل حق کے حقوق غصب کئے بیٹھے ہیں،ان کے لئے ماہ رمضان المبارک ایک خصوصی تحفہ ہے ،یہ ’’شہرالمواساۃ ‘‘یعنی آپسی غمخواری وہمدردی کا مہینہ ہے اس ارشادپاک کوسرمہ بصیرت بناکروہ اپنے اس مرض کا علاج کرسکتے ہیں( ۴)ہماری غمخواری ،رحمت ومہربانی صرف خاندان ،احباب واقرباء ،شہرووطن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان حدودسے آگے بڑھ کرساری انسانیت کے ساتھ ہونی چاہیئے۔موجودہ حالات رمضان المبارک کے حوالہ سے حقوق اللہ کی ادائیگی میں متوجہ رہنے کے ساتھ حقوق العباد کے ادا کرنے میں خصوصی توجہ اورمزیدان کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت دے رہے ہیں۔ خلق خداسے ہماراتعلق اسلام کی ہمہ گیریت کی طرح عالمگیرہوجائے ،اسلام نے’’ تألیف قلب ‘‘کوخصوصی اہمیت دی ہے ، اس کا مقصودبھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ہدایت دکھانا بھی ہے اورجواسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرچکے ہیں ان کی اسلام پربرقراری میں مددوتعاون بھی ہے۔اورکم سے کم درجہ میں اس کا ایک اہم عظیم مقصدشرپسندکفارومشرکین کے ضررونقصان سے ملت اسلامیہ کو بچانا بھی ہے، ظاہرہے ان اہم امورپرفکرودردکے ساتھ غوروفکرکرنے اوران پرعمل آوری کی مخلصانہ منصوبہ بندی کے ساتھ رمضان المبارک کوخوش آمدید کہاجائے تو واقعی یہ ماہ مبارک امت مسلمہ پر حق سبحانہ کی رحمتوں کے دروازے وا کرنے(کھولنے) کا اہم ترین ذریعہ ثابت ہوسکتاہے۔