خواتین پر مظالم کا سلسلہ

اس زندگی میں کتنے نشیب و فراز ہیں
سمجھے ہوئے تھے راہ کو ہموار، گر پڑے
خواتین پر مظالم کا سلسلہ
پنجاب میں پیش آئے واقعہ میں پھر ایک نوجوان لڑکی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ درندگی کی انتہا کا یہ واقعہ پنجاب کے موگا ضلع میں پیش آیا جہاں ایک نوجوان لڑکی اور اس کی ماں کو دست درازی کا نشانہ بنانے اور ان کی عصمت کو پامال کرنے کی کوشش کے بعد انہیں چلتی ہوئی بس سے نیچے پھینک دیا گیا ۔ لڑکی دواخانہ میں علاج کے دوران جانبر نہ ہوسکی جبکہ اس کی ماں ہنوز دواخانہ میں زیر علاج ہے ۔ ویسے تو ملک بھر میں روزآنہ اس طرح کے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں جہاں خواتین و لڑکیوں کو مظالم کا شکار کیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ دست درازی کی جاتی ہے ‘ ان کی عصمتوں کو تار تار کیا جاتا ہے ۔ کہیں انہیں مزید جہیز کیلئے ہراساں کیا جاتا ہے تو کہیں انہیں دولت کے لالچ میں زندہ جلادیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ جنسی امتیاز کے واقعات بھی بے شمار ہیں۔ کچھ وقت قبل دہلی میں پیش آئے واقعہ کے بعد سے اس تعلق سے کچھ شعور بیدار ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی ۔ دہلی واقعہ نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی تھی ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعہ کا نوٹ لیا گیا تھا ۔ ہر گوشے سے اس کی مذمت ہوئی تھی اور خاطیوں کے خلاف تیز رفتار مقدمہ بھی چلایا گیا ۔ مرکزی حکومت نے اپنی جانب سے ایک قانون بناتے ہوئے اسے نربھئے ایکٹ کانام دیدیا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس قانون کی تیاری کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھنے لگی ہے ۔ ریاستی حکومتیں بھی لا اینڈ آرڈر اور دوسرے امور پر اتنی توجہ دیتی ہیں کہ انہیں خواتین کے خلاف ہورہے مظالم کے واقعات کے تدارک کیلئے پالیسیاں تیار کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی یا پھر اس جانب جان بوجھ کر کوئی توجہ نہیں کی جاتی ۔ سماج میں پھیلتا ہوا یہ ناسور کسی دن سارے معاشرے کو پراگندہ کرنے کے در پہ ہوگیا ہے اس کے باوجود حکومتوں کی خاموشی یا اس حساس مسئلہ کے تئیں بے حسی انتہائی افسوسناک ہے ۔ پنجاب میں پیش آیا شرمناک واقعہ سارے سماج کے کیلئے لمحہ فکر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جس قدر اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی قدر سماج میں اس تعلق سے بے حسی بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ایسے واقعات کے انسداد اور تدارک کیلئے کسی بھی گوشے سے خاطر خواہ کوششیں نہیں ہو رہی ہیں۔
جب کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے کچھ وقت تک ہر گوشے کی جانب سے مذمت کی جاتی ہے ۔ حکومتیں کچھ دکھاوے کے اعلانات اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں تنقیدوں اور مذمتوں کے ذریعہ اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کرلیتی ہیں۔ این جی اوز کی جانب سے کچھ احتجاج کیا جاتاہے اور پھر اس واقعہ کو اس طرح فراموش کردیا جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ یہی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے سماج میں اس تعلق سے بے حسی پیدا ہوگئی ہے اور اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ سب سے افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے عذر اور جواز پیش کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی خواتین کے لباس کو اس کی وجہ بتاتا ہے تو کوئی مغربی کلچر کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ لباس اور بیرونی کلچر اگر ہم پر اثر انداز ہونا شروع ہوجائے تو پھر ہندوستانیت کہاں جائیگی ؟ ۔ہم کب تک دوسروں کے کلچر کو اختیار کرتے ہوئے اپنے کلچر سے دوری کا سلسلہ ترک کرینگے ؟ ۔ کب تک ہم سماج میں پھیلنے والے اس ناسور کے تعلق سے بے تعلقی اور بے حسی کا اظہار کرتے رہیں گے ؟ ۔ کب تک ہماری اپنی صفوں میں بھیڑیئے گھومتے رہیں گے ؟ ۔ کیا اس طرح کے واقعات کا تدارک اور انسداد ہوسکے گا ؟ ۔ ان واقعات کو روکنا اور ملک کی بیٹیوں اور بہنوں و ماووں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے ؟ ۔ کیا ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اسی طرح زندگیاں ہارتے ہوئے دیکھتے رہ جائیں ؟ ۔ کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور کب اس کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی ہوگی ؟ ۔
جس طرح ملک میں پولیو کے خاتمہ کیلئے ایک کامیاب مہم چلائی گئی تھی اور جس طرح اب سوچھ بھارت کے نام پر تشہیر کی جا رہی ہے ایسی کوششوں کی بجائے ہم کو اپنی توانائیاں ہماری خواتین کی عزت و جان کی حفاظت کیلئے صرف کرنی چاہئے ۔ ہم اپنے اطراف کے کچرے کو تو صاف کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں اور سوچ میں جو گندگی پیدا ہوگئی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے اس کو کون صاف کریگا ؟ ۔ حکومت ہو کہ دوسری سیاسی جماعتیں ہوں یا سماج میں کام کرنے والی این جی اوز ہوں سبھی کو اس تعلق سے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس ناسور کو سماج سے نکال پھینکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جب تک ملک میں خواتین محفوظ نہیں رہیں گی اور ان پر مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا اس وقت تک ہم کو ترقی یافتہ قوم کہلانے کا کوئی حق نہیں پہونچتا ۔