خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمۃ الزہراؓ

محمد مسعود علی خان فضلی
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن عصر کی نماز کے بعد حضور اکرم ﷺ اور دیگر صحابہ کرام جس میں حضرت علیؓ ، زید بن حارثؓ ، حضرت بلالؓ وغیرہ شامل تھے صحنِ مسجد نبویؐ میں محو گفتگو تھے کہ ایک نورانی چہرے والے باریش بزرگ تشریف لائے اور علیک سلیک کے بعد حضور اکرم ﷺ کے بازو جا بیٹھے اور سرگوشی میں کچھ کہنے لگے جسے سن کر پہلے تو حضور اکرم ﷺ مسکر اُٹھے اور پھر سبحان اﷲ کہنے لگے ۔ وہ بزرگ اپنی گفتگو ختم کرکے چلے گئے ۔
حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم سب لوگ حیران تھے کہ وہ بزرگ کون تھے ؟ ، کہاں سے آئے تھے ؟ اور حضور اکرمﷺ سے کیا گفتگو کی جس کو سن کر آپؐ مسکرانے لگے تھے اور بار بار سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہہ رہے تھے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا : ’’علی! کیا ان صاحب کو تم جانتے ہو ؟ یہ حضرت جبرئیل امین تھے جو مجھے خدا کا پیام پہنچانے آئے تھے کہ خدا نے تمہارا رشتۂ ازدواج میری بیٹی فاطمہؓ سے طئے کردیا ہے ‘‘۔
یہ خوشخبری سُنکر ہم سب حضرت علیؓ کو مبارکباد دینے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے تھے ‘‘۔
تقریب نکاح کے لئے آپؐ نے اپنی بیٹی کے لئے بازار سے ایک لباسِ عروسہ خریدلائے تاکہ وقت نکاح دلہن پہنے ۔ بی بی فاطمہؓ کو اپنے اباجان کا لایا ہوا جوڑا بہت پسند آیا اور وقت نکاح پہننے کے لئے رکھ لیاکہ درِ رسول پر ایک ضرورت مند بیوہ خاتون آکر دستِ طلب دراز کرتی ہے کہ اس کی بیٹی کا نکاح ہے مگر وقتِ نکاح پہننے کے لئے کوئی کپڑے نہیں ہیں۔ میں درِ رسول پر اس اُمید پر کھڑی ہوں کہ لڑکی کو نکاح کے موقعہ پر پہننے کے لئے ایک جوڑا مل جائے گا ۔ یہ سُن کر سیدہ دوڑی دوڑی اپنے کپڑوں کے پاس پہنچیں اور سرکاردوعالم ﷺ کا لایا ہوا نیا جوڑا اس عورت کے حوالے کردیااور اپنے نکاح کے وقت مستعملہ جوڑا زیب تن کئے رہیں۔
سیدہ بی بی فاطمہؓ نکاح کے بعد حضرت علیؓ کے گھر آگئیں اور گھر گرہستی میں ہمہ تن مصروف ہوگئیں۔ گھر کے سارے کام خود کرتیں، چکی سے آٹا پیستیں ، اپنے بچوں اور اپنے خاوند حضرت علیؓ کے کپڑے دھوتیں بسا اوقات حضرت علیؓ کی غیرموجودگی میں کنویں سے مشکیں بھر بھر کے پانی لاتیں ۔ اتنے سارے کام کرنے کے باوجود اُف تک نہ کرتیں۔ آپ اپنا سارا وقت یادِ الٰہی ، عبادت ریاضت ، ذکر اور اذکار میں بسر کرتیں۔ انتہائی صابر ، قناعت پسند ، رحمدل اور توکل الی اﷲ پر زندگی گذارنے کے عادی تھیں۔
ایک مرتبہ کہیں سے کچھ درہم بطور تحفہ آپ کو نذر کئے گئے تو آپؓ نے سارے کے سارے درہم غرباء ، مساکین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کروادیئے جبکہ گھر میں روٹی کے لئے ایک چٹکی آٹا نہ تھا ۔ جب خادمہ نے بتایا تو کہنے لگیں ’’خیر کوئی بات نہیں ۔ اللہ رازق اور رحیم ہے ، کچھ نہ کچھ اسباب بنادے گا ‘‘
ایک دن مال غنیمت میں کچھ غلام اور لونڈیاں مدینہ منورہ میں لائی گئیں اور آپؐ اُنھیں مستحقین میں تقسیم فرمارہے تھے حضرت علیؓ نے سیدہ کو مشورہ دیا کہ تم بھی اپنے لئے ایک لونڈی اباجان سے مانگ لو تاکہ گھر کے کام کاج میں مدد ملے ۔ سیدہ بی بی فاطمہ ؓ اپنے اباجان کی خدمت میں پہنچ کر عرض کرنے لگیں ’’ابا جان ! اگر آپ مجھے ایک لونڈی دیدیں تو مجھے بڑی راحت مل جائے گی ‘‘ ۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی چہیتی بیٹی کی گفتگو سنیں اور سیدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر جواب دیا : ’’اے میری پیاری بیٹی ! یہ مال و زر ، مرد و زن جو مال غنیمت میں آئے ہیں ان لوگوں کی امانت ہے جو اسلام کی سربلندی کیلئے محاذ جنگ پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ۔ یہ سب ان کا اور ان کے لواحقین کا حق ہے ، بھلا میں اس امانت میں خیانت کیسے کرسکتا ہوں ۔ تم اس چند روزہ زندگی کے لئے راحت کا سامان تلاش نہ کرو ، خدا نے جیسا بھی رکھا ہے اور جو کچھ دیا ہے اس پر ہی قناعت کرو ، یہی ایک مومن کی پہچان ہے ‘‘ ۔
حضور اکرم کے اس جہانِ فانی سے پردہ فرمائے ہوئے ابھی چھ ماہ کا عرصہ بھی نہ گذرا تھا ۳؍ رمضان المبارک ۱۰؁ھ سیدہ بی بی فاطمۃ الزہراؓ تیز بخار میں مبتلا ہوگئیں اور جب آفتاب مائل بہ زوال ہوکر مغرب کی طرف اُترنے لگا تو سیدہ کا بخار بھی شدت اختیار کرنے لگا اور جب یقین ہوگیا کہ آخری وقت آن پہنچا ہے تو انھوں نے چند ایک باتیں بطور وصیت حضرت علیؓ کے گوش گذار کیں:(۱) میرے مرنے پر آہ و بکاہ نہ کرنا ، صبر کرنا جس طرح تم سب نے رسول اﷲ کی رحلت پر کیا تھا ۔ (۲) چاہو تو دوسری شادی کرلینا ۔ اگر میری بہن حضرت زینبؓ کی بیٹی ’’امامہ بنتِ ابوالعاص سے نکاح کرلو تو میرے بچوں کے حق میں اچھی ماں ثابت ہوں گی ۔ (۳) میرے جنازے پر لوگوں کو جمع نہ کرنا ۔ رات کے اندھیرے میں سپرد لحد کردیناکیوں کہ جب سے اباجان نے تاکید کی تھی کہ عورتوں کو پردہ میں رہنا چاہئے اس دن سے آج تک میں پردہ میں رہی ہوں کسی نامحرم نے میرے سایہ پر بھی نظر نہیں ڈالی ۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے جسد خاکی پر بھی کسی کی نظر پڑے‘‘ ۔