حیدرآباد پولیس کی ہدایت پر امریکی مور خ کا لکچر منسوخ۔

مغل دور حکمرانی‘ رامائن کے کردار ‘ اور انڈیالوجی پر عبور رکھنے والی امریکی مورخ نے کہاکہ یہ ہندوتوا نظریات کے حامل لوگوں کے لئے فخر کا دن ہے
نئی دہلی ۔ امریکی مورخ اڈری ٹریچک کے مجوزہ پروگرام جو 11اگست کے روز مقرر تھا کو حیدرآباد پولیس نے منظوری دینے سے انکار کردیا۔

وہ حیدرآباد میں منعقدہ پروگرام کے دوران ’’ غیر معروف کہانیاں‘ انڈو اسلامک ماضی کا خلاصہ اور آج کے عصبیت کے ایام کا سفر‘‘ کے عنوان پر خطاب کرنے والی تھیں۔ خصوصی طور پر رامائن کے کرداروں کی تشریح کرنے والے ٹریچک دائیں بازو کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مورخ نے کہاکہ ’’آر ایس ایس اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے‘‘ لوگوں نے حیدرآباد پولیس سے شکایت کی کہ وہ میری آمد پر احتجاج کرریں گے۔

کرشناکیریتی فاونڈیشن نے ہسٹری آف پیس کے اشتراک سے یہ پروگرام منعقد کررہے تھے۔

فاونڈیشن کے ایک ذرائع نے کہاکہ ’’ اسکالر کے متعلق کئی شکایتیں کی گئی‘ بالخصوص ان کے سوشیل میڈیا پوسٹ کو مخالف ہندو کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تقریب میں ان کے خطا ب پر لوگ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔

حیدرآباد پولیس نے ہماری جانکاری دی اور ہم نے تقریب منسوخ کردی۔یہاں پر دوسری کوئی جگہ نہیں انعقاد کے لئے‘‘۔

لوگ کی شکایت کے بعد حالات کے متعلق پوچھنے پر تریچاک نے کہاکہ وہ ہندوستان دورے کے موقع پر حیدرآباد نہیں ائیں گی۔

ٹریچاک نے اپنے ایک پوسٹ میں کہاکہ ’’ میری آمد پر کئی افراد کی جانب سے احتجاج کی دھمکی کے متعلق حیدرآباد پولیس کی جانکاری فراہم کرنے کے بعد منتظمین یہ فیصلہ لیا ہے۔ میں نہ صرف ایک فرد کا لیٹر دیکھا جو خود کو آر ایس ایس‘ بی جے پی او ربی جے پی ایم سے تعلق کی بات کو قبول کی ہے‘‘۔

حیدرآباد میں وہ تاریخ مغل اور سنسکرت لٹریچر پر بات کرنے والی تھیں۔ وہ اپنے اس پروگرام کے دوران 1680کے دہے میں سلطنت دکن پر اورنگ زیب کے سفاکانہ حملوں پر بات کرنے والی اوردوسری صدی عیسوی میں ہندوستان کے بدھ مت دور کے خاتمہ کے متعلق خطاب کرنے والی تھیں۔

انہوں نے اپنے دستخط پر مشتمل نوٹ میں لکھا کہ’’ مجھے بے حد افسوس ہے کہ میری رائے او رسونچ پیش نہیں ہوسکی ۔ نصابی آزادی اور معلومات حاصل کرنے والوں کے لئے آج دن بڑا غمگین ہے ‘ اور ہندو راشٹرکی حمایت کرنے والوں کے لئے خوشی کا دن ہے‘‘ ۔

ٹریچاک دراصل ریٹگیرس یونیورسٹی نیوارک میں ساوتھ ایشیائی تاریخ اور اسٹانفورڈ یونیورسڈی میں محکمہ مذہبی تعلیم کی پروفیسر ہیں۔

انہو ں نے ’’کلچر آف انکاونٹرس‘ مغل کورٹ میں سنسکرت‘‘ اور اورنگ زیب دی مین اینڈ دی میتھ‘‘جیسے تصانیف بھی لکھی ہیں۔پچھلے کچھ وقت سے ٹریچاک تنازعات میں گھیری ہوئی ہیں ‘ خاص طور پر تب سے جب انہوں نے رامائن کے اہم کرداروں کے متعلق مبینہ طور ایسے الفاظ کا استعمال کیا تھا جس سے کٹر ہندوتوا نظریہ کے حامل لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کی بات بھی کی گئی

۔یہی وجہہ ہے کہ حیدرآباد میں ان کے خطاب پر روک لگانے کے لئے ہندو تنظیمیں سرگرم عمل ہوگئی۔انڈیا لوجی پر ٹریچاک نے پی ایچ ڈی کی ہے اور بیس سالوں سے سنسکرت کا مطالعہ کررہی ہیں۔ انہو ں نے تین یونیورسٹیوں سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کی ہے۔

بطور انڈو لوجسٹ ان پر اعتبار کے متعلق حملوں کے جواب میں انہوں نے کہاکہ’’ میں سب کچھ تو نہیں جانتی مگر مجھے اس شعبہ پر مہارت حاصل ہے‘‘۔ اورنگ زیب پر اپنے کام کے متعلق انہو ں نے کہاکہ’’ کچھ وجوہات کی بنا پر میں نے اورنگ زیب پر مطالعہ کیا۔

وہ ہندوستان کی 17ویں صدی میں ایک اہمیت کا حامل سیاسی فردتھے۔مغلوں کے سب سے غریب حکمران کے طور پرانہیں دیکھا جاتاتھا ۔ میں مغل مورخ ہوں‘‘