حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد

مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے ۔ اب ایوان میں اس پر مباحث اور پھر رائے دہی ہوگی ۔آندھرا پردیش کی دو اہم سیاسی جماعتوں وائی ایس آر کانگریس اور تلگودیشم پارٹی نے حکومت کے خلاف یہ تحریک ایوان میں پیش کی ہے ۔ وائی ایس آر کانگریس نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا موقف دینے سے مرکز کے انکار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی ۔ تلگودیشم نے ابتداء میں حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی تاہم تحریک عدم اعتماد کی تائید یا علیحدہ تحریک پیش کرنے کا اس نے اعلان نہیں کیا تھا ۔ تاہم کل پارٹی نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلینے کے اشارے دئے تھے اور آج اس سلسلہ میں باضابطہ اعلان بھی کردیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی تلگودیشم نے ایوان میں تحریک عدم اعتماد پیش کی اور ایک طرح سے آندھرا پردیش کی دونوں ہی جماعتیں بی جے پی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ تلگودیشم پارٹی چار سال سے این ڈی اے میں شامل رہی اور اس کے دو قائدین کو مرکزی کابینہ میں بھی شامل کیا گیا تھا ۔ اب آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کے مسئلہ پر تلگودیشم نے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ حکومت کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئی ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کا مسئلہ جہاں آندھرا پردیش کو خصوصی موقف دینے سے متعلق ہے وہیں اس سے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل صف آرائی کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے ۔ اب حکومت کی ایسی حلیف جماعتیں جو دبے الفاظ میں حکومت پر تنقیدیں کر رہی تھیں یا سخت لب و لہجہ اختیار کر رہی تھیں ان کیلئے بھی موقع مل گیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کھل کر سامنے آجائیں۔ ان میں سب سے آگے شیوسینا ہے ۔ شیوسینا ہر مسئلہ پر حکومت کیلئے اپوزیشن سے زیادہ تنقیدیں کر رہی ہے اور اسے نشانہ بنانے کا کوئی موقع گنوانے کو تیار نہیں ہے ۔ ٹاملناڈو کی آل انڈیا انا ڈی ایم بھی ایسا لگتا ہے کہ این ڈی اے سے دوری بنانے کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ اس پارٹی نے ابتداء میں وزیر اعظم نریند رمودی کا ساتھ دینے کے اشارے دئے تھے لیکن ریاست کے بدلتے حالات نے اسے بھی اپنے موقف پر نظرثانی کیلئے مجبور کردیا ۔
کانگریس ‘ کمیونسٹ جماعتیں ‘ عام آدمی پارٹی اور ایسی ہی دوسری جماعتیں ویسے بھی این ڈی اے کی مخالف ہیں ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے بھی بی جے پی اور مرکزی حکومت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو اس کی بھی تائید ملنے کا یقین دکھائی دے رہا ہے ۔ ترنمول سربراہ ممتابنرجی نے تلگودیشم کی این ڈی اے سے علیحدگی کا بھی خیر مقدم کیا ہے ۔ کچھ علاقائی جماعتیں جیسے تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ کچھ جماعتوں نے ابھی کوئی موقف واضح نہیں کیا ہے ۔ لوک سبھا میں سیاسی جماعتوں کی جو عددی طاقت ہے اس کی بنیاد پر فی الحال حالانکہ حکومت کو کسی طرح کا خطرہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بی جے پی کو اب بھی سادہ اکثریت حاصل ہے اور اسے کچھ حلیف جماعتوں کے ارکان کی تائید بھی حاصل ہے لیکن یہ تحریک سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ضرور ہوگئی ہے کیونکہ اس سے آئندہ سال کے عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو صف آرائی کرنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے اور ہر جماعت اپنے طور پر انتخابی تیاریوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ یہ جماعتیں حکومت کو ایوان میں گھیرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں تاکہ انہیں اس کے اثرات کو سمجھنے اور پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کرنے میں آسانی ہوسکے ۔ جب ایوان میں اس تحریک پر مباحث ہونگے اور پھر رائے دہی ہوگی تو تمام سیاسی جماعتوں کا موقف سامنے آئے گا اور حکومت کو بھی اپنی حلیفوں کے تعلق سے فیصلہ کرنے میں اور اپوزیشن کو اپنے استحکام کی کوششوں میں اس سے مدد مل سکتی ہے ۔
نریند رمودی حکومت کے خلاف چار سال کے وقفہ میں پہلی مرتبہ یہ تحریک پیش کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج چاہے جو کچھ بھی رہیں لیکن اس کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو گھیرنے میں اگر اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہوسکتی ہیں اور وہ اس تحریک کی تائید میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرپاتی ہیں تو پھر نہ صرف ایوان میں بلکہ ایوان کے باہر بھی اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوکستے ہیں۔ حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی کوششوں میں شدت پیدا ہوسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے کیڈر میں حوصلے پھونکے جاسکتے ہیں۔ ملک کے عوام کو ایک پیام دیا جاسکتا ہے ۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ گورکھپور اور پھولپور میں بی جے پی کو کراری شکست ہوئی ہے اپوزیشن کو اس موقع سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع ضرور ملا ہے اور اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے ۔