حکومت کا مشن امپاورمنٹ

لوگ کر کر کے وعدے بدلتے رہے
میں بھی شانے پہ شانہ بدلتا رہا
حکومت کا مشن امپاورمنٹ
مرکز میں قائم نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اب ملک بھر میں اقلیتوں کو لبھانے اور رجھانے کے مقصد سے مشن امپاورمنٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں اقلیتوں کیلئے نافذ کی جانے والی اسکیمات کا جائزہ لیا جائیگا اور حکومت کا یہ ادعا ہے کہ ان اسکیمات پر موثر اور بہترین انداز میں عمل آوری کو یقینی بنایا جائیگا تاکہ جس مقصد سے یہ اسکیمات شروع کی گئی ہیں ان کو یقینی بنایا جاسکے ۔ مرکزی حکومت در اصل اس طرح سے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ملک میں دوسرے طبقات کی طرح اقلیتوں کی بھی ترقی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ اس مشن کی ذمہ داری مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو سونپی گئی ہے ۔ اس ذمہ داری کے تحت مختار نقوی سارے ملک کا دورہ کرتے ہوئے وہاں اقلیتوں کی اسکیمات پر عمل آوری اور اس میں ہونے والی رکاوٹوں کا جائزہ لیں گے اور حکومت کو ان کو دور کرنے کے تعلق سے مشورے دینگے ۔ ابتداء میں وہ 3 جنوری کو کیرالا کا دورہ کرینگے ۔ وہاں مقامی سطح پر مختلف گوشوں سے ملاقاتیں اور مشورے کرنے کے بعد وہ تلنگانہ کا دورہ کرینگے ۔ ان کے آئندہ کے دوروں کو بھی قطعیت دی جا رہی ہے ۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں تقریبا 100 ایسے اضلاع کی نشاندہی کی ہے جہاں اقلیتی اسکیمات پر موثر عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدام کئے جائیں گے ۔ ان اسکیمات پر عمل آوری اور ان کے ثمرات کی منتقلی میں ہونے والی رکاوٹوںکو دور کرنے کے تعلق سے غور و خوض کیا جائیگا ۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ ملک میں اقلیتوں کو خوش کیا جاسکے کیونکہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چھ تا سات ماہ کے عرصہ کے دوران یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں خوف و ہراسانی کا شکار کیا جا رہے ۔ سیاسی و سماجی سطح کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب کو بھی جبری طور پر بدلا جا رہا ہے یا کہیں لالچ دیتے ہوئے مسلمانوں کو ہندومت میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن سے حکومت کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ اب شائد حکومت اس امیج کو قدرے بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہتی ہے ۔
جس طرح سے مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے سارے ملک میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ اقلیتوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے انہیں دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے ۔ اقلیتوں کو سرکاری اسکیمات میں مناسب حصہ داری نہیں مل رہی ہے ۔ مسلمانوں کو کسی بھی شعبہ میں تحفظات کی فراہمی کو روکنے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہیں ترقی کے ثمرات میں شریک نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان کی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی حالت اس ملک کے دوسرے طبقات سے انتہائی ابتر ہوگئی ہے اور یہ حقیقت خود سرکاری اعداد و شمار میں شامل ہے ۔ اس کے باوجود انہیں حکومت کی جانب سے راحت پہونچانے کے اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو جو انتہائی معمولی مراعات مل سکتی ہیں انہیں بھی روکنے کیلئے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ انتہا یہ ہوگئی ہے کہ اب مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو جبرا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ کہیں انہیں دھمکایا جارہا ہے تو کہیں انہیں لالچ دئے جا رہے ہیں۔ کہیں انہیں کچھ مراعات کے نام پر راغب کیا جارہا ہے تو کہیں انہیں بچوں کے مستقبل کے تعلق سے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ اب تو یہ دعوے بھی کئے جانے لگے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں ہندوستان سے اسلام اور عیسائیت کو ختم کردیا جائیگا اور یہاں ہندو ازم کو لاگو کیا جائیگا ۔ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
یہ سب کچھ ایسے حالات ہیں جن سے مودی حکومت کے تئیں اقلیتوں میں جو ناراضگی تھی وہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ خود سکیولر حلقوں میں حکومت کا امیج متاثر ہوگیا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے اور امریکہ کی جانب سے ہندو تنظیموں پر اور ان کی کارروائیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے ۔ اب حکومت مشن امپاورمنٹ کے ذریعہ یہ تاثر دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اقلیت مخالف ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حقیقی معنوں میں ملک کے دستور پر عمل کرنے کا تہیہ کرلے ۔ ملک کے تمام طبقات بشمول اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے یہی کافی ہے کہ حکومت صرف اور صرف دستوری اور قانونی حدود کو قبول کرے اور اس کے مطابق کام کرے کیونکہ ملک کے دستور میں تمام طبقات کی فلاح و بہبود کا راستہ مضمر ہے ۔ صرف دکھاوے کیلئے مشن امپاورمنٹ کسی مقصد کی تکمیل نہیں کرسکتا اور حکومت کو یہ حقیقت قبول کرنی ہوگی ۔