حکومت ‘میڈیا اور دولت

ریت کا طوفان جب آتا ہے ریگستان میں
سرگھسادیتے ہیں اپنا ریت میں شترمرغ
حکومت ‘میڈیا اور دولت
جس وقت بی جے پی نے 2014 میںعام انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کیا تھا اسی وقت سے یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ ہندوستان کا میڈیا بی جے پی کے حق میں مہم کا حصہ دار بن گیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت سے میڈیا بی جے پی کا زر خرید ہوگیا ہے ۔ مختلف گوشوں سے یہ الزامات عائد کئے جا رہے تھے کہ ہندوستان کا میڈیا بی جے پی کی تشہیر کیلئے آلہ کار بن گیا ہے ۔ جس وقت سے مرکز میںنریندرمودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت قائم ہوئی اس وقت سے میڈیا کے رول میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو حکومت کی خامیوںکو پس پشت ڈال کر ہر چیز کو حب الوطنی کی کسوٹی قرار دیتے ہوئے اس کی واہ واہی کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے ۔ میڈیا کے جو ہندوستانی گھرانے ہیں وہ ایک دوسرے پر حکومت اور نریندر مودی حکومت کی چاپلوسی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ تاثر عام ہوتاجارہا ہے کہ جو میڈیا چینل مودی حکومت یا خود وزیر اعظم کی تشہیر اور ان کی جھوٹی پبلسٹی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے رہے گا اسے زیادہ انعامات کی بارش کا موقع مل سکتا ہے ۔اب ایک آر ٹی آئی سوال کے ذریعہ یہ حقیقت بالآخر سامنے آگئی کہ حکومت نے گذشتہ تین سالوں میں 11 ارب روپئے کی انتہائی خطیر رقم میڈیا گھرانوں پر خرچ کی ہے ۔ اس قدر بھاری رقومات کے خرچ کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان میڈیا گھرانوںکو حکومت اور وزیر اعظم کی چاپلوسی اور ان کی پردہ پوشی کی قیمت چکائی جائے ۔ حالانکہ یہ رقم اشتہارات کے نام پر جاری کی گئی ہے لیکن اس کے پس پردہ مقاصد اور عزائم ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ۔ جس طرح سے ہندوستانی میڈیا حکومت کی چاپلوسی اور اپوزیشن کے خاتمہ کیلئے کوشاں ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے ایجنڈہ کو ان میڈیا گھرانوں کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ گذشتہ تین سال کی میڈیا نشریات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستانی میڈیا نے حکومت کی ایک حصہ داری کو قبول کرتے ہوئے اپوزیشن کو اپنے حریف کے طور پر نشانہ بنانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔
حکومت کی ناکامیوںاور خامیوںکو اجاگر کرنے کی بجائے میڈیا نے اپوزیشن کو نشانہ بنانے میںزیادہ دلچسپی دکھائی تھی اور اس کے کئی ثبوت سامنے ہیں۔ ہر مسئلہ پر حکومت کو ممکنہ حد تک بچانے اور اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے اسے کمزور ظاہر کرنے اور اس کی صفوںمیں انتشار کو فروغ دینے یا کوئی اختلاف ہے تو اس کو ہوا دینے میں بھی میڈیا گھرانوں نے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کی ہے ۔ اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور حکومت کے کاموں کو اور اس کی ذمہ داریوں کو منفرد اور بے مثال کارناموں کے طور پر پیش کرنے میں بھی میڈیا نے سبقت حاصل کی تھی ۔ اس یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ حکومت میڈیا گھرانوں میں چاپلوسی کی دوڑ پیدا کرتے ہوئے ان پر انعامات کی بارش کرتی رہی ہے ۔ وہیں جن چینلوں پر حقائق کو پیش کرنے کی اور پیشہ ورانہ دیانت داری کو اختیار کرتے ہوئے مسائل کو اٹھانے کی کوشش کی تو پھر انہیں اس کی قیمت بھی چکانی پڑی ۔ انہیں نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کے دفاتر اور ان میڈیا چینلوںکے ذمہ داروں کے مکانات پر دھاوے کئے گئے ۔ یہ سارا کچھ طاقت اور دولت کا بیجا استعمال ہے ۔ اس کے ذریعہ اپوزیشن کو دبانے اورمیڈیا کو خریدنے کا جو عمل ہوا ہے وہ در اصل ملک کی جمہوریت کیلئے بھی خطرناک ہے اور اس سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ یہ حقیقت نہ حکومت سمجھنے کو تیار ہے اور نہ میڈیا کو اس سے کوئی دلچسپی دکھائی دیتی ہے ۔
جمہوری اقدار اور اصولوںکی پاسداری کرنا اور ان کی پامالی کا تدارک کرنا خود حکومت اور صحافت یا میڈیا کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس اسی بات کا ہے کہ اسی میڈیا اور حکومت کی جانب سے جمہوری اقدار کو ختم کرنے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس وقت دہلی میں اروند کجریوال کی حکومت قائم ہوئی تھی اس کے بعد حکومت کی جانب سے جو اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلس کیلئے جاری کئے گئے تھے اس مسئلہ کو عدالتوں سے تک رجوع کردیا گیا تھا اور یہ دہائی دی گئی تھی کہ یہ عوامی پیسہ ہے اور اس کو حکومت اور چیف منسٹر کی تشہیر کیلئے خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسا الزام عائد کرنے والے بی جے پی کے ہی قائدین تھے ۔ تاہم اب اسی بی جے پی کی حکومت نے مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے طاقت اوردولت دونوں کا بیجا استعمال کیا ہے ۔ اس سے جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور صحافت کے اقدار کو پامال کیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی مذموم عمل ہے اور اس کا تدارک ہوناچاہئے ۔