حکایات سعدیؒ استاد کا ظلم باپ کی محبت سے بہتر ہے

حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ملک مغرب میں ، میں نے ایک مدرسہ میں ایک چڑچڑے مزاج کے استاد کو دیکھا ، جس کو دیکھتے ہی انسان پریشان ہوجائے ۔ جب تلاوت کرتا تو دل روشن ہونے کی بجائے سیاہ ہوجاتا ۔ حسین و جمیل بچے اس کے ظلم سے تنگ تھے اور وہ اس کی موجودگی میں ہنس بھی نہ سکتے تھے ۔ کسی کے منہ پر تھپڑ مارتا اور کبھی کسی کی پنڈلی کو شکنجے میں جکڑدیتا ۔لوگوں کو اس کے کردار کا علم ہوا تو انہوں نے اس کو مار کر وہاں سے نکال دیا ۔ پھر اس کی جگہ ایک نیک سیرت اور دانا شخص کو استاد رکھا گیا جو بلاضرورت کسی بچے کو نہ مارتا تھا ۔ بچوں پر پہلے استاد کا رعب حاوی تھا اور دوسرے نرم طبیعت استاد کی نرمی نے ان بچوں کو شیطان بنادیا ۔ جو پڑھ چکے تھے وہ بھول گئے اور ان کا زیادہ تر وقت کھیل کود میں بسر ہوتا تھا ۔ وہ ایک دوسرے کو تختیاں مار کر توڑ دیتے تھے ۔ جب استاد بے ضرر ہوتو بچے پڑھنے کے بجائے خرافات کے کھلاڑی بنتے ہیں ۔ میں اس مکتب کے پاس سے دو ہفتہ کے بعد گزرا تو دیکھا کہ لوگ پہلے والے استاد کو مناکر واپس لاچکے تھے ۔ مجھے تکلیف ہوئی اور میں نے لاحول ولاقوۃ پڑھی اور کہا کہ دوبارہ شیطان کو فرشتوں کا استاد مقرر کردیا گیا ہے۔ ایک دانا نے میری بات سنی تو مسکراکر کہا کہ ایک بادشاہ نے بچے کو مکتب میں بٹھایا اور اس کو چاندی کی تختی لے کردی اور سونے کے پانی سے تختی پر لکھا کہ استاد کا ظلم باپ کی محبت سے بہتر ہے ۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں پس یاد رکھو کہ استاد کو موقع کی مناسبت سے طالب علم کو مارنا چاہئے ورنہ اپنے رعب کے ذریعے ہی اسے قابو میں رکھے ۔
٭٭٭٭٭