حوصلہ اورلگن کامیابی کے ضامن

نشری والدین کے ساتھ رہتی تھی ، نشری کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ، لیکن والد کی معاشی حالت اس کو آگے کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ نشری نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ بابا میں انٹرپڑھنا چاہتی ہوں۔ والد نے کہا کہ ’’بیٹا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں تجھے پڑھا سکوں ‘‘ بابا کا جواب سن کر بیٹی مایوس ہوگئی ۔

دوسرے دن نشری کے والد ایک زکوٰۃ کمیٹی سے ایک فارم لے آئے اور اپنی بیٹی کو اس فارم کی خانہ پری کرنے کی ہدایت دی ’ لائق بیٹی نے فارم پڑھ کر کہا کہ بابا میں محنت کروں گی مگر زکوٰۃ کے پیسوں سے نہیں پڑھوں گی ۔ اگر میں زکوٰۃ کے پیسوں سے پڑھوں گی تو مجھ سے غریب بچوں کی حق تلفی ہوگی ۔ نشری اپنے ٹیچر کے پاس گئی ۔ اس نے ساری کہانی سنائی ۔ ٹیچر نے کہا کہ میرے پاس بچوں کو ٹیوشن پڑھاؤ ‘ میں آپ کو معقول معاوضہ دوں گا ۔ نشری نے فوراً کہہ دیا وہ ٹیچر کے گھر جاتی اور بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ۔ اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی ۔ ٹیچر کے مشورے پر نشری نے کمپیوٹر کا کورس بھی کرلیا اور انٹر کے بعد گریجویشن بھی مکمل کرلیا ۔ اس نے ٹیوشن پڑھا کر بی ایڈ میں بھی کامیابی حاصل کرلی ۔ چند دنوں بعد حکومت نے اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کیا ۔ نشری نے اس امتحان میں شرکت کی اورکامیابی حاصل کی اور سرکاری اسکول کی ٹیچر بن گئی ۔ اب اس کے اور اس کے والدین کے معاشی حالات اچھے ہونے لگے ۔ نشری کے والد نے اپنی بیٹی کی کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ نشری بیٹی نہیں بلکہ میرا بیٹا ہے جس نے سخت محنت حوصلہ اور لگن سے محنت کرتے ہوئے ترقی کی منازل طئے کیں ۔