حلب میں قتل عام کے بعد امریکہ و روس جنگ بندی پر متفق

دمشق ۔ 30 اپریل ۔(سیاست ڈاٹ کام) شام کے سرحدی شہر حلب پر سرکاری فوج کی وحشیانہ بمباری میں بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد امریکہ اور روس نے جنگ بندی کی کوششیں دوبارہ تیز کردی ہیں۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ایرنسٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم جنگ بندی کے احیاء کے لیے پُرامید ہیں۔ حلب میں لڑائی روکنے اور فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا پابند بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کر رہے ہیں تاکہ مزید کشت وخون سے بچا جاسکے‘‘۔ امریکہ اور روس کی جانب سے حلب میں جنگ بندی کی تازہ مساعی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہیں جب حالیہ ایک ہفتے میں اسدی فوج کی وحشیانہ بمباری سے دو سو سے زاید افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ادھر روسی خبر رساں اداروں نے شامی اپوزیشن رہنما قدری جمیل کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’روس اور امریکہ نے شام میں جنگ بندی کو دوبارہ فعال بنانے سے اتفاق کیا ہے۔

جلد ہی جنگ بندی کا دائرہ حلب، دمشق اور اللاذقیہ تک پھیلایا جائے گا۔ قدری جمیل کا کہنا تھا کہ وسط شب سے جنگ بندی کا اطلاق ہوسکتا ہے۔درایں اثناء روسی حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ شام میں ’خاموش نظام‘ ہرقسم کے اسلحہ کے استعمال اور عسکری کارروائیوں کی ممانعت کرتا ہے۔شام میں جنگ بندی کی نگرانی کرنے والے روسی مرکز کے عہدیدار جنرل سیرگی کور الینکوف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حلب میں تازہ بمباری کے بعد جنگ بندی کی مساعی تباہ سے دوچار ہوسکتی ہیں۔شامی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دمشق اور اللاذقیہ میں جنگ بندی 30 اپریل کی شب کو نافذ ہوگئی ہے تاہم غیر جانب دار ذرائع سے جنگ بندی کی تصدیق نہیں ہوسکی۔سرکاری فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقی الغوطہ اوردمشق میں عارضی جنگ بندی 24 گھنٹے جب کہ شمالی اللاذقیہ میں 72 گھنٹے کیلئے جنگ بندی کی گئی ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید بن رعد الحسین نے جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں بتایا کہ شام میں تازہ لڑائی نے سیاسی محاذ پر مسئلے کے حل کے لیے ہونے والی بات چیت کوسنگین خطرات سے دوچار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حلب میں سرکاری فوج کی وحشیانہ بمباری کے بعد ملک میں ہرطرف خوف وہراس کی فضا پائی جا رہی ہے۔