حق کے علمبردار ہو جاؤ

جو ایمان لائے ہیں وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں اور جو کافر ہیں وہ جنگ کرتے ہیں طاغوت کی راہ میں، تو (اے ایمان والو!) لڑو شیطان کے حامیوں سے، بے شک شیطان کا فریب کمزور ہے۔ (سورۃ النساء۔۷۶)
عمل ایک ہی ہوتا ہے، لیکن مقاصد کے اختلاف کے باعث وہ لائق تحسین یا قابل نفریں ہو جاتا ہے۔ جنگ کی اجازت اسلام
نے بھی دی اور دوسری قومیں بھی لڑائی کیا کرتی ہیں۔ دونوں جنگوں میں خون کے دریا بہتے ہیں، کشتوں کے پشتے لگتے ہیں، زخمیوں کی چیخ و پکار سے فضا سوگوار ہو جاتی ہے، لیکن پھر بھی اسلام کی جنگ اور دوسری جنگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مؤمن کی جنگ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے، عدل و انصاف، مساوات و حریت، نیکی و تقویٰ کی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے ہوتی ہے

اور غیر مؤمن کی جنگ کے پس پردہ صرف مادی فوائد کارفرما ہوتے ہیں۔ کسی ملک پر قبضہ، کسی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا، اپنے لئے تجارت کی منڈیاں قائم کرنا، مفتوحہ ممالک
کی معدنیات اور قدرتی ذخائر سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو طاغوت (یعنی باطل) کے ایک لفظ سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ ان مقاصد کے لئے جو جنگ لڑی جائے گی، خواہ لڑنے والوں کے سرپر ہلالی پرچم لہرا رہا ہو اور غلغلہ ہائے تکبیر سے ساری فضا تھرا رہی ہو، تاہم وہ جنگ فی سبیل اللہ نہیں ہوگی۔

اے اہل ایمان! باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادو، تم حق کے علمبردار ہو، حق کو فتح اور غلبہ نصیب ہوگا تو انسانیت کے چمن میں بہار آجائے گی۔ اعلی اخلاقی قدروں کی بالادستی قائم ہوگی، نیکی کی روشنی اور مہلک ہر سو پھیل جائے گی، امن و عافیت کا دور دورہ ہوگا، باطل کے سربراہوں کی فتنہ سامانیوں سے خوف زدہ اور دل گرفتہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔