حقیقتِ اِعتکاف

ڈاکٹر محمد طاہر القادری
وصالِ حق کیلئے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کی خواہش ہر دور میں سعید روحوں کا شیوہ رہا ہے اور انسان اخلاق و روحانی کمال کے حصول کیلئے مختلف نوعیت کی اضافی مشقتیں اور مجاہدات اپناتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ حصول مقصد کی تگ و دو میں کبھی تو وہ جادۂ اعتدال پر گامزن رہا ہے اور کبھی افراط و تفریط کا شکار ہو گیا ہے۔ وصال محبوب کی خاطر تزکیہ نفس کیلئے کی جانے والی مختلف النوع کاوشوں میں سے ایک مسلمہ طریق مخلوق سے بے رغبتی اور کنارہ کشی ہے، جس میں افراط کی معروف صورت رہبانیت ہے، جو مختلف امم سابقہ کا شیوہ رہا ہے۔
امم سابقہ میں وصال حق کے متلاشیوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ معمولات حیات اور دنیاوی مشاغل و مصروفیات جاری رکھتے ہوئے اپنی منزل کو نہیں پاسکتے اور نفس کی غفلتیں اور سماجی ذمہ داریوں کی الجھنیں انھیں وہ محنت و مشقت اور مجاہدہ نہیں کرنے دیتیں، جو معرفت حق اور وصال محبوب کے لئے ضروری ہے تو انھوں نے لذات نفسانی سے دست برداری اور علائق دنیوی سے کنارہ کشی کی راہ اپنائی۔ سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کیا۔ بیوی، بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑکر غاروں کی خلوتوں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں ڈیرہ ڈال دیا اور وہیں رہ کر کثرت عبادت و مجاہدہ بلکہ نفس کشی کے ذریعہ وصال حق کی جستجو کرنے لگے۔ قرآن نے ان کے اس تصور حیات کو رہبانیت کے نام سے موسوم کیا ہے۔ قرآن پاک کی رو سے یہ طرز زندگی وصال حق کی متلاشی روحوں نے از خود اختیار کیا تھا۔ یہ طریقہ ان پر فرض نہیں کیا گیا تھا، ارشاد ہوتا ہے ’’اور رہبانیت جس کی ابتداء خود انھوں نے کی، ہم نے ان کو ان پر فرض نہ کیا تھا، مگر انھوں نے اسے اللہ کی رضامندی کے لئے اختیار کیا، لیکن جس طرح اس کو نبھانا چاہئے تھا، نباہ نہ سکے۔ پھر (بھی) ان میں جو ایمان لائے ہم نے ان کو اجر دیا اور ان میں سے اکثر (تو) نافرمان ہی ہیں‘‘۔ (سورہ الحدید۔۲۷)
یعنی دین عیسوی میں اصلاً رہبانیت فرض نہیں کی گئی تھی، بلکہ اس کا تعلیمات مسیح علیہ السلام میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ بعد کے لوگوں نے ازخود رضائے الہی کی خاطر زیادہ ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و مشقت کی خاطر رہبانیت (ترک دنیا) کی صورت پیدا کرلی۔ چوں کہ یہ کام بھی رضائے الہی کے نصب العین کے تحت کیا گیا تھا، اس لئے قرآنی بیان کے مطابق باری تعالی نے اسے امر مستحسن سمجھ کر قبول کرلیا۔ اب ضروری تھا کہ رہبانیت کے جملہ تقاضے کماحقہٗ پورے کئے جاتے، تاکہ اس سے صحیح روحانی فائدہ میسر آتا۔ لیکن ان میں سے اکثر افراد بالالتزام ان تقاضوں کو پورا نہ کرسکے، اس لئے انھیں ’’نافرمان‘‘ قرار دیا گیا اور جنھوں نے اس کے تقاضوں کو صحیح طورپر پورا کیا، انھیں باری تعالی نے اجر و ثواب سے بہرہ ور کیا۔گویا جب تک رہبانیت میں مقصدیت کارفرما رہی، اسے گوارا کیا جاتا رہا، لیکن جب وہ بھی محض رسم دنیا بن کر رہ گئی، اس کی روح فوت ہو گئی اور وہ مقصدیت جس کی وجہ سے اسے گوارا کرلیا تھا، وہ پیش نظر نہ رہی تو اس کی افادیت بھی ختم ہوکر رہ گئی۔
یہاں ایک نکتہ جو قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس فعل کو کہیں حرام قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے کوئی ایسا فعل مذمور قرار دیا ہے، جس پر اللہ رب العزت کی نافرمانی لازم آتی ہو، بلکہ نہایت حکیمانہ انداز میں اس بات کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ ہم نے تو اس فعل کو گوارا بھی کرلیا تھا، لیکن محض اس لئے کہ اسے ہماری ہی رضا کے حصول کے لئے اپنایا گیا تھا اور ان لوگوں کا مقصود و مطلوب سوائے وصال حق کے اور کچھ نہ تھا، لہذا ہم نے ان پر نہی وارد نہیں کی۔ گویا رہبانیت فی نفسہٖ کوئی مذموم اور ناپسندیدہ شعار زندگی نہیں تھا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘ (کشف الخفائ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے بالعموم یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ اسلام نے رہبانیت کی نفی کردی ہے، یا اسلام میں رہبانیت نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ یہ استنباط اپنی جگہ درست ہے، لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان اقدس کے ذریعہ نفس کشی کے بے جا ضابطوں سے نجات عطا کرکے اپنی امت کو ایک بہت بڑی نعمت سے بہرہ ور کردیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی زبان حال سے پوری امت کو یہ خوش خبری دے رہا ہے کہ ’’اے شمع دین حق کے پروانو! تلاش حق کے راہ نوردو! اور جلوہ محبوب کے متلاشیو! اب تمھیں اپنے محبوب کے دیدار و وصال کے لئے اپنی بیوی بچوں کو خیرباد کہنے کی ضرورت نہیں، اب تمھیں حصول منزل کے لئے جنگلوں، ویرانوں اور غاروں کو اپنا مسکن بنانے کی حاجت نہیں۔ اب تمھیں تزکیہ نفس اور تصفیۂ باطن کے لئے معاشرتی زندگی اور سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی صورت میں ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہوتے ہوئے رہبانیت جیسی بے جا مشقوں کے بوجھ سے آزاد کردیا گیا ہے‘‘۔ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت کے ذریعہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، کاروبار زندگی کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے، بیوی بچوں اور دیگر افراد معاشرہ کے حقوق کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے، وصال یار اور قرب الہی کی منزل کو پا سکتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت کا نعم البدل ہمیں اعتکاف کی صورت میں عطا کردیا ہے۔ یعنی اعتکاف کے ہوتے ہوئے ہمیں عبادت و ریاضت اور نفس کشی کے حصول کے لئے رہبانیت کے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام دین فطرت ہے، جو انسان کے فطری داعیات اور نفسی مقتضیات کی رعایت رکھتے ہوئے ان کی تکمیل کے لئے حکیمانہ راہ تجویز کرتا ہے۔ اسلام اگر کسی چیز پر پابندی عائد کرتا ہے یا کسی تصور کو ختم کرتا ہے تو انسان کو اس کا بہتر بدل عطا کرتا ہے، تاکہ اس تصور کی خوگر طبائع پر یہ تبدیلی گراں نہ گزرے اور اس تبدیلی کی نہ صرف افادیت مسلم ہو جائے، بلکہ انسانی طبائع اس کی طرف بہ رغبت مائل بھی ہو۔
مثال کے طورپر جب سودی لین دین جیسے انسانیت کش نظام کو معاشرہ سے ختم کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس کے خاتمہ سے پہلے زکوۃ و صدقات اور قرض حسنہ جیسے انسانیت پرور تصورات کو متعارف کرایا گیا۔ اگر زکوۃ و صدقات اور قرض حسنہ جیسے انسان پرور نظام کو رائج کئے بغیر سود کی لعنت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جاتی تو یقیناً مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکتے۔
اسلام نے شراب کو یکدم حرام قرار نہیں دیا، بلکہ اسلام جو دین فطرت ہے اور انسانی طبائع کی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہے، شراب پر بتدریج پابندی عائد کی اور اس وقت تک اسے کلیتاً حرام قرار نہیں دیا، جب تک کہ شراب کے نشہ اور کیف و سرور کے رسیا طبائع کو عشق الہی کے نشہ سے متعارف نہیں کرادیا۔ جب تک ذکر الہی اور دیدار مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نشہ سے بہرہ ور نہیں کردیا گیا اور لوگوں کو نشہ شراب کا نعم البدل عطا نہیں کردیا گیا، شراب پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ علی ہذ القیاس اسلام نے جن جن امور پر پابندی عائد کی ہے، فطرت انسانی کی مقتضیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا بہتر بدل انسان کو عطا کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام مذموم امور پر بھی اس وقت تک پابندی عائد نہیں کرتا، جب تک کہ اس کا بہتر بدل مہیا نہیں کردیتا تو رہبانیت جو فی نفسہٖ اتنی ناپسندیدہ اور مذموم چیز نہیں تھی، بلکہ معرفت حق اور وصال الہی کی طلب سے عبارت ایک باقاعدہ نظام حیات تھا، جب اسلام اس پر پابندی عائد کر رہا ہے تو کیا اس کا کوئی نعم البدل نہیں دیا گیا ہوگا؟۔ اسلام کی حکیمانہ تعلیمات کے پیش نظر یہ ممکن ہی نہیں کہ اس نے رہبانیت کا بہتر بدل امت مسلمہ کو فراہم نہ کردیاے ہو اور وہ نعم البدل جو جادۂ حق کے متلاشیوں کو اسلام نے عطا کیا ہے ’’اعتکاف‘‘ ہے۔
اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی ہے اور یہ رب العزت کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق سے امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی لطف و احسان ہے کہ وصال حق کی وہ منزل جو امم سابقہ کو زندگی بھر کی مشقتوں اور بے جا ریاضتوں کے نتیجے میں بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی، فقط چند روز کی خلوت نشینی سے میسر آسکتی ہے۔ چنانچہ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان چند روز کے لئے علائقِ دنیوی سے کٹ کر گوشہ نشین ہو جائے۔ ایک محدود مدت کے لئے خلوت گزیں ہوکر اللہ کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی تجدید کرلے۔ اپنے من کو آلائش نفسانی سے علحدہ کرکے اپنے خالق و مالک کے ذکر سے اپنے دل کی دنیا آباد کرلے۔ مخلوق سے آنکھیں بند کرکے اپنے خالق کی طرف لو لگالے۔ ان کیفیات سے مملو ہوکر جب انسان دنیا ومافیہا سے کٹ کر صرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ لو لگا لیتا ہے تو اس کے یہ چند ایام برسوں کی عبادت اور محنت و مشقت پر بھاری قرار پاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خلوت نشینی کا فلسفہ کیا ہے؟ انسان آخر خلوت نشینی کیوں اختیار کرلے؟۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کا نفس انسان کو ہمہ وقت برائی کی طرف اُکساتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’بے شک نفس انسان کو برائی کی طرف ہی اکساتا رہتا ہے‘‘ (سورہ یوسف۔۵۳) ارشاد قرآنی کی رو سے تمرد و انحراف انسانی نفس کا شیوہ اور اس کی فطرت میں شامل ہے۔ چنانچہ کاروبار حیات کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انسان بالعموم غفلتوں کا شکار رہتا ہے، نتیجتاً انسان میں کسی کا بندہ ہونے کا شعور بیدار نہیں رہتا اور انسان مسلسل بغاوت و سرکشی پر مائل رہتا ہے۔ اسی شعور بندگی کو بیدار کرنے کے لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس امر کی تعلیم دی ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں تھوڑی دیر کے لئے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے آپ کو ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میں پیش کرکے اصلاح احوال کا متمنی ہو۔ یہ معمول زندگی بھر رہنا چاہئے، لیکن رمضان المبارک چوں کہ خصوصی رحمتوں کا مہینہ ہے، اس لئے اس ماہ رحمت میں خلوت نشینی کے اس تصور کو ایک باقاعدہ ضابطہ کے تحت اعتکاف کی صورت میں متعین کردیا گیا، تاکہ سال بھر علائق دنیوی میں ملوث رہنے والا انسان چند روز کے لئے اپنے نفس کے متمرد اور سرکش گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔ نیز کثرت ذکر الہی اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ تصفیہ باطن کرکے خلوت میں جلوت محبوب کی دولت سے بہرہ ور ہوسکے۔